نہ میں بادشاہ، نہ کوئی ولی ہوں،
بس مٹی کا ذرّہ، وہی میں ابھی ہوں۔
نہ دنیا کی چمک، نہ نفس کا غرور،
میں فقیرِ محبت، سراپا قصور۔
میرا جھکنا، میری سب سے بڑی جیت ہے،
رب کے آگے جھکا ہوں، یہ میری فطرت کی ریت ہے۔
جو سر اٹھا کے چلا، وہ گم ہو گیا،
جو خاک میں جا گرا، وہ کم ہو گیا؟
نہیں! وہ مکمل ہو گیا۔
نفس کی خواہشوں کو جب، فنا کر کے جیا جائے
کسی اور کی خاطر خود کو، خامشی سے کھو دیا جائے
جہاں دل کی زبان پر ہو، فقط دوسرے کا درد
وہی لمحہ عبادت ہے، وہی ایثار کا پردہ
نہ نام ہو نہ صلہ مانگا، نہ شہرت کی تمنا ہو
بس اک شوقِ محبت ہو، جو ہر حد سے سچا ہو
جلے خود، روشنی دے وہ، چراغوں کی روایت ہو
کسی کے درد پر مرہم، کسی کے غم میں نایابت ہو
یہی ہے اصل انسانیت، یہی ہے روح کا سفر
کہ اپنا حق بھی چھوڑے، اگر چمک جائے کسی کا گھر
خاک میں ہاتھ ڈالے
تو مٹی نے کہا:
"اسی میں لوٹ آنا ہے…"
آنکھ بند کی
تو روح نے کہا:
"تُو کچھ نہیں…
بس اُسی کا سایہ ہے"
نہ قصر، نہ تخت، نہ تاج، نہ نام
صرف مٹی… اور اُس میں چھپا ہوا کلام
نہ کوئی قبر، نہ کتبہ، نہ کافور کی مہک،
بس دل کی ایک دیوار ہے، جہاں وہ دفن ہے۔
کبھی خاموشی میں سانس لیتا ہے، کبھی آنکھوں میں جلتا ہے،
مر چکا ہے… مگر مجھ میں زندہ ہے، روز مرتا ہے۔
کچھ چہرے روشنی جیسے ہوتے ہیں،
اندھیروں میں دل کے قریب ہوتے ہیں۔
نہ آواز، نہ شور، فقط احساس،
ایسے لوگ رب کی عنایت ہوتے ہیں۔
---
جنہیں دیکھ کر دل کو یقین آ جائے،
کہ اچھائی اب بھی زندہ ہے۔
جو لفظوں سے نہیں، عمل سے چمکیں،
وہی لوگ اصل میں آئینہ ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ خاموشی میں بھی ساتھ ہوتے ہیں،
نہ بولیں، پر دل کے پاس ہوتے ہیں۔
یہ جو روشنی سی محسوس ہوتی ہے اندر،
بس وہی لوگ، خدا کے خاص ہوتے ہیں۔
کبھی ہنسا، کبھی رویا، کبھی خاک میں سویا،
عشقِ ازل میں مجھ سا بھی کوئی رسوا ہوا؟
لب پہ نام بھی نہ آیا، دل میں آگ بھی نہ بجھی،
اور پھر بھی لوگ کہتے ہیں "یہ تو بس دیوانہ ہوا۔"
نہ نیاز میں ریا، نہ سجدے میں سودا،
میں وہ سوال ہوں جس کا جواب فقط "فنا"۔
دل کو جلایا، زخموں کو بوسہ دیا،
تب جا کے "انا" سے "لا" کا رشتہ بنا۔
دلِ مبتلا کو میسر نہ تھا کوئی قافلہ،
ہم نے درد کو مرشد بنایا، اور راہ خود بنا لی۔
اب کوئی اگر پوچھے "تو کون ہے؟"
ہم کہیں: ساکنِ سلوک، راکبِ راز، اور سالکِ خودی۔
ہم وہ ہیں جو زخم پہ ہنستے ہیں،
دنیا کے قاعدے نہیں جچتے ہیں۔
دل لگا بیٹھے ہیں بس ایک رب سے،
محبتوں کے حساب نہیں رکھتے ہیں۔
مطلبی چہروں کا شکریہ ادا کرو،
انہوں نے سکھایا کہ اپنی قدر کیسے کرتے ہیں۔
جو تمہیں صرف ضرورت میں یاد رکھیں،
وہ تمہارے نصیب میں نہیں، تمہارے سبق میں ہوتے ہیں۔
دن کے شور تھم گئے،
خیال اب خاموش ہیں،
چاندنی نے آہستہ سے
دل پر ہاتھ رکھا ہے۔
---
آنکھوں میں جو تھکن ہے،
وہ اب خوابوں میں بہے گی،
اور جو باتیں کہی نہ گئیں،
وہ نیند سن لے گی۔
---
رات کی گود میں چھپ جاؤ،
نرمی سے، دعاؤں کے ساتھ…
کچھ نہ سوچو، بس سو جاؤ —
رب تمہارے پاس ہے۔
🕯🕯😴🕯🕯
نہ دنیا کی طلب ہے، نہ عزت کا غرور،
بس ایک چادر ہے، اک ذکرِ مشہور۔
---
دل کو لگایا اُسی سے،
جس نے دل بنایا،
محبت کی نہیں… مالک کی وفا نے جگایا۔
---
نہ دنیا کی رسموں میں قید،
نہ خانقاہ کی دیواروں میں بند،
دل میں سجدہ،
اور ہاتھ میں فقط چند خالی پل۔
---
جو مانگا… اُسی سے،
جو ملا… اُس کا شکر،
جو نہ ملا… اُس میں بھی اُس ہی کا ذکر۔
ویرانی کے موسم میں کچھ بھی نہیں ہوتا،
دل ٹوٹ تو جاتا ہے، پر شور نہیں ہوتا۔
---
دھوپوں سے چھلکتا ہے تنہائی کا منظر،
چہرہ تو دکھائی دے، پر نور نہیں ہوتا۔
---
اک یاد کی دستک ہے، اک سرد سی سانسیں،
یہ درد کا ساگر ہے، مگر دُور نہیں ہوتا۔
---
خوابوں کے دریچوں میں بکھری ہے خموشی،
آواز تو آتی ہے، حضور نہیں ہوتا۔
---
ہم بیٹھے رہے چپ سا ہر بات پہ تکتے،
کچھ کہہ بھی لیا جائے، اثر دور نہیں ہوتا۔
---
جس دل کی ویرانی میں تیرا عکس چھپا ہو،
وہ دل کبھی بھی اب معمور نہیں ہوتا۔
"چھوٹی نیکیوں کو مت چھوڑو،
کبھی کبھار وہی تمہیں بڑی مصیبتوں سے بچا لیتی ہیں۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain