نہ مال میں، نہ حال میں،
یہ خوشی چھپی ہے صرف وصال میں۔
وصالِ رب، وہ لمحۂ نور،
جہاں دل ہو خالی، مگر روح ہو پُر سُرور۔
نہ شکایت، نہ حسرت، نہ فریاد کی صدا،
بس شکر کا آنسو، اور دل میں دُعا۔


لفظوں سے آگے کچھ جذبے ہوتے ہیں،
جو صرف خاموشیوں میں سمجھے جاتے ہیں۔
کچھ چہرے دعا جیسے ہوتے ہیں،
جنہیں دیکھ کر دل بے وجہ سکون پاتا ہے۔
کبھی کچھ رشتے خون سے نہیں بنتے،
وہ دعاؤں سے جُڑتے ہیں… اور صبر سے نبھتے ہیں۔
محبت وہ نہیں جو پا لی جائے،
محبت وہ ہے… جو خاموشی سے قبول ہو جائے۔
اک لمحہ جو سچ ہو، وہی کندیل بنتا ہے،
اک دل جو جھک جائے، وہی محراب سنتا ہے۔
نہ جلتی ہے یہ دنیا سے، نہ وقت کے چراغوں سے،
یہ تو روشن ہو جاتی ہے، رب کے ہلکے اشاروں سے۔
کندیل وہ ہے جو اندر جلتی ہے، بے نام و نشان،
نہ طاق میں، نہ دیوار پر، فقط دل کے درمیاں۔
کبھی اشک میں چمکتی ہے، کبھی سجدے میں دکھتی ہے،
کبھی خاموشی کے آنچل میں، دھیرے دھیرے بجھتی ہے۔
دنیا والے شعلوں کے پیچھے دوڑتے رہ جاتے ہیں،
اور کندیل والے، خاموشی میں حق پا جاتے ہیں۔
جھکوں گا صرف رب کے آگے، باقی سب فانی ہیں،
جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے، وہ سب کہانی ہیں۔
میں خاموش سہی، پر کمزور نہیں،
میرے صبر کی دیوار میں دراڑ نہیں۔
جو سمجھتا ہے مجھے آسان، آزمائے کبھی،
میرے لہجے کے نیچے طوفان چھپے ہیں کئی۔
میں وہ آئینہ ہوں جو ہر چہرہ دکھاتا ہے،
پر جو خود کو سچ نہ دیکھے، وہی گھبراتا ہے۔
میرے اصول میرے ہتھیار ہیں،
میرے لفظ، میری تلوار ہیں۔
نہ میں سب کا بنتا ہوں، نہ سب کو سہتا ہوں،
جس کا دل سچا ہو، بس اُسی کا رہتا ہوں۔
نہ ناموں سے، نہ شانوں سے، نہ منصب کی بلندی سے،
محبت تولتی ہے قد، فقط دل کی سادگی سے۔
جہاں ہر اک مسافر کو ملے تھوڑی سی چھاؤں بھی،
وہی رستہ، وہی منزل، وہی دنیا ہے آدم کی۔
کسی کا درد سن لینا، کسی کی پیاس بانٹ آنا،
یہی قربت، یہی خدمت، یہی سچ ہے، یہی جانا۔
کبھی چپ چاپ آنکھوں سے، دعا بن کے نکل جانا،
کبھی خاموش لہجے میں، کسی کا درد پہچاننا۔
نہ سونے کی ہے قیمت کچھ، نہ زیور کی ہے عظمت کچھ،
اگر ہو دل میں انسانیت، تو سب کچھ ہے، فقط وہی سچ۔
جو کسی سے نہیں ملتے
وہ چہروں میں دل نہیں ڈھونڈتے،
آوازوں میں سچائی تلاش نہیں کرتے،
بس اک خاموش دعا کی طرح
وقت کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر
دھیرے سے گزر جاتے ہیں۔
وہ چائے کی پیالی میں
تنہائی کو گھول کر پیتے ہیں،
اور ہر گھونٹ میں
کسی بھولے لمحے کی نمی چھپاتے ہیں۔
انہیں موسموں کی کوئی پروا نہیں
گرمی ہو یا سردی،
ان کے اندر تو بس اک ایک سا موسم رہتا ہے —
بے نام، بےرنگ، بےآواز

پنکھا چل رہا ہے، مگر ہوا روٹھ گئی،
گرمی میں نیند بھی جیسے کہیں چھپ گئی!
رات بھر کروٹیں بدلیں، پسینہ دوست بنا،
نیند کو بلایا، وہ کولر کے ساتھ چلی گئی!
ایسی گرمی ہے کہ خواب بھی پسینے میں بہہ گئے،
نیند آئی تو مچھر جگا گئے!
گرمی میں نیند بھی شرارتی ہو جاتی ہے،
آنکھ بند کرو تو لوڈشیڈنگ آ جاتی ہے!
تکیہ بھی گرم، کمبل بھی غائب،
نیند نے کہا: چائے پی لو، مجھ سے امید نہ رکھو!
کاش نیند بھی یو پی ایس پہ ہوتی،
تو گرمی میں سکون کا وعدہ نبھاتی
چائے نہ ملی تو دن کا آغاز نہیں ہوتا،
یہ عشق ہے، کوئی عام مذاق نہیں ہوتا۔
سنا ہے محبت میں نیند اُڑ جاتی ہے،
ہم نے تو چائے پی کر بھی راتیں جاگی ہیں!
اک پیالی چائے کیا ملی،
دنیا حسین لگنے لگی!
جو دل سے اتر جائے، وہ لوگ بھول جاتے ہیں،
پر جو چائے سے اتر جائے، وہ کپ تک نہیں بچاتے!


مغرور تھا وہ، صدا کی طرح
سنائی تو دیتا، مگر سُنا نہ گیا
لبوں پہ تھا نورِ کلام کا زعم
دل میں مگر، اک زخم چھپا نہ گیا
ہر آئینہ اُس سے شرمندہ تھا
کہ عکس میں صرف "میں" نظر آتی تھی
وہ خود کو خُدا سے بھی بڑا جانے
مگر بندگی، نبھائی نہ گئی
نہ حرف میں سچ، نہ لہجے میں نم
نہ ذکر میں ذوقِ خضوع رہا
غرور کی راکھ نے ڈھانپ لیا
جو دل کبھی مثلِ شمع جلا
نہ جھک سکا، نہ مٹ سکا
نہ عشق کی گلی سے گزر سکا
کہ جھکنے کا ہنر، صوفی جانیں
وہ مغرور، بس خود پہ مر مٹا
بس کر، یہ دنیا تجھے سمجھ نہ پائے گی
تو ان جانوں میں شامل ہے
جو خاک میں گم ہو کر
حق کی خوشبو بن جاتے ہیں
خود کو مت رُلا، بس یادِ حق میں بھیگا رہ
ہر درد کو درود بنا
ہر آہ کو "ہُو" میں بدل
پھر دیکھ، کیسا سکون اترے گا…

نہ چاہا کسی کو یوں دل سے کبھی،
جیسے تجھے اے رب، پکارا ہے ہم نے۔
نہ کوئی چہرہ سکون دے سکا،
نہ کوئی صدا، جو تُو دے سکا۔
تُو ملا، تو سب کچھ ملا،
تُو نہ ہو، تو کچھ بھی نہیں۔
دنیا کی ہر خوشی فانی لگی،
تیرا ذکر ہی دائمی سکون بنا۔
محبت تیری، اک روشنی سی ہے،
جو اندھیرے دل میں صبح کر دیتی ہے۔
نہ بدلے کی آس، نہ مقصد کوئی،
بس تیری رضا، یہی طلب ہے کوئی۔
قدم جو ڈگمگائے، تُو تھامتا ہے،
اشک جو گرے، تُو چنتا ہے۔
میں گناہگار، تُو غفّار ہے،
میں فقیر، تُو پروردگار ہے۔
تُو جس دن ناراض ہو جائے،
میرے لیے وہی دن قیامت ہے!
جب وقت ٹھہر جائے گا، سانسیں رک جائیں گی،
وہ گھڑی، جب ہر صدا خاموش ہو جائے گی۔
نہ باپ، نہ بیٹا، نہ یار ساتھ دے گا،
ہر شخص فقط اپنا حساب لے کے کھڑا ہو گا۔
آنکھوں سے گریں گے پچھتاوے کے آنسو،
جن کو چھپایا تھا، وہ سب لکھے ہوں گے حرف بہ حرف۔
کیا کچھ کمایا؟ کیا کھو دیا؟
کس کو رُلایا؟ کس سے جھوٹ کہا؟
نہ کوئی زبان صفائی دے گی،
نہ کوئی طاقت رہائی دے گی۔
بس اک ہی صدا ہر دل سے نکلے گی:
"کاش! یہ دن آنے سے پہلے لوٹ آتا...


submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain