"اُجالوں میں مل ہی جائے گا کوئی نہ کوئی غالب...
تلاش اُس کو کرو جو اندھیروں میں ساتھ دے۔۔۔
نہ لباس میں رنگ، نہ بات میں شور،
پھر بھی چہرہ چمکے… جیسے رب کا ظہور۔
نہ کسی در سے مانگا، نہ کسی کو سنایا،
جو بھی مانگا… بس اپنے اندر سے پایا۔
وہی آنکھ جو خود پر روئی، آخر اسی میں "وہ" نظر آیا،
یہی درویشی ہے — خود کو مٹا کر، اُسی میں سمایا۔
گرمی آئے تو سورج کی ضد میں خواب پگھلتے ہیں،
سردی میں یادیں کمبل بن کے لپٹتی ہیں۔
بارش برسے تو دل بھیگنے کو مچلتا ہے،
اور خزاں میں شاخیں پرانی باتیں کرتی ہیں۔
بہار جب آتی ہے، تو دل نئی امیدوں سے بھر جاتا ہے،
موسم بدلتے ہیں… اور ساتھ دل کا حال بھی کہہ جاتے ہیں۔
چہرہ کچھ بولا، آنکھوں نے سب سنایا،
جیسے دل کے اندر کوئی پرانا درد جگمگایا۔
نہ لبوں پر شکایت، نہ لفظوں میں فریاد،
پھر بھی ہر جذبہ صاف صاف نظر آیا۔
یہ وہ پل تھا،
جہاں بولنے کی جگہ سمجھنے نے لے لی۔
نہ چہرے پر رنگ، نہ باتوں میں زور،
پھر بھی وہ ہر دل میں اترا ہوا تھا۔
نہ ہنرِ ادا، نہ فصاحتِ کلام،
بس سچائی کا لہجہ، اور سکون جیسا لہو تھا۔
نہ جھکا، نہ بولا زیادہ،
پھر بھی سب کچھ کہہ گیا آنکھوں سے۔
یہ سادگی نہیں کمزوری تھی،
یہ وہ طاقت تھی جو صرف خلوص والے پہچانتے ہیں۔
دل وہ کہ جذبوں کی لغت سے لبریز،
مگر خاموش — جیسے کسی راز کا خمیر۔
روح میں ایسی روشنی کہ آئینہ بھی جھک جائے،
اور چال میں وہ وقار کہ ہوا بھی آہستہ گزرے۔
اداؤں میں غرور تھا، مگر شفاف سا،
جیسے خُودی نے حیا کی چادر اوڑھ رکھی ہو۔
نہ جھکا، نہ رُکا، نہ کسی کو سراہا،
پھر بھی ہر نگاہ نے اُسے نظرِ نیاز سے چاہا۔
جس پر کیا ہم نے نثار اپنے ایقان کا چراغ،
وہی بنا خنجر، وفا کے سینے میں پیوست۔
نہ رہا اب حسنِ تعلق پہ بھروسا کوئی،
اعتبار بھی اب استخارہ مانگتا ہے۔
نہ مال میں، نہ حال میں،
یہ خوشی چھپی ہے صرف وصال میں۔
وصالِ رب، وہ لمحۂ نور،
جہاں دل ہو خالی، مگر روح ہو پُر سُرور۔
نہ شکایت، نہ حسرت، نہ فریاد کی صدا،
بس شکر کا آنسو، اور دل میں دُعا۔
لفظوں سے آگے کچھ جذبے ہوتے ہیں،
جو صرف خاموشیوں میں سمجھے جاتے ہیں۔
کچھ چہرے دعا جیسے ہوتے ہیں،
جنہیں دیکھ کر دل بے وجہ سکون پاتا ہے۔
کبھی کچھ رشتے خون سے نہیں بنتے،
وہ دعاؤں سے جُڑتے ہیں… اور صبر سے نبھتے ہیں۔
محبت وہ نہیں جو پا لی جائے،
محبت وہ ہے… جو خاموشی سے قبول ہو جائے۔
اک لمحہ جو سچ ہو، وہی کندیل بنتا ہے،
اک دل جو جھک جائے، وہی محراب سنتا ہے۔
نہ جلتی ہے یہ دنیا سے، نہ وقت کے چراغوں سے،
یہ تو روشن ہو جاتی ہے، رب کے ہلکے اشاروں سے۔
کندیل وہ ہے جو اندر جلتی ہے، بے نام و نشان،
نہ طاق میں، نہ دیوار پر، فقط دل کے درمیاں۔
کبھی اشک میں چمکتی ہے، کبھی سجدے میں دکھتی ہے،
کبھی خاموشی کے آنچل میں، دھیرے دھیرے بجھتی ہے۔
دنیا والے شعلوں کے پیچھے دوڑتے رہ جاتے ہیں،
اور کندیل والے، خاموشی میں حق پا جاتے ہیں۔
جھکوں گا صرف رب کے آگے، باقی سب فانی ہیں،
جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے، وہ سب کہانی ہیں۔
میں خاموش سہی، پر کمزور نہیں،
میرے صبر کی دیوار میں دراڑ نہیں۔
جو سمجھتا ہے مجھے آسان، آزمائے کبھی،
میرے لہجے کے نیچے طوفان چھپے ہیں کئی۔
میں وہ آئینہ ہوں جو ہر چہرہ دکھاتا ہے،
پر جو خود کو سچ نہ دیکھے، وہی گھبراتا ہے۔
میرے اصول میرے ہتھیار ہیں،
میرے لفظ، میری تلوار ہیں۔
نہ میں سب کا بنتا ہوں، نہ سب کو سہتا ہوں،
جس کا دل سچا ہو، بس اُسی کا رہتا ہوں۔
نہ ناموں سے، نہ شانوں سے، نہ منصب کی بلندی سے،
محبت تولتی ہے قد، فقط دل کی سادگی سے۔
جہاں ہر اک مسافر کو ملے تھوڑی سی چھاؤں بھی،
وہی رستہ، وہی منزل، وہی دنیا ہے آدم کی۔
کسی کا درد سن لینا، کسی کی پیاس بانٹ آنا،
یہی قربت، یہی خدمت، یہی سچ ہے، یہی جانا۔
کبھی چپ چاپ آنکھوں سے، دعا بن کے نکل جانا،
کبھی خاموش لہجے میں، کسی کا درد پہچاننا۔
نہ سونے کی ہے قیمت کچھ، نہ زیور کی ہے عظمت کچھ،
اگر ہو دل میں انسانیت، تو سب کچھ ہے، فقط وہی سچ۔
جو کسی سے نہیں ملتے
وہ چہروں میں دل نہیں ڈھونڈتے،
آوازوں میں سچائی تلاش نہیں کرتے،
بس اک خاموش دعا کی طرح
وقت کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر
دھیرے سے گزر جاتے ہیں۔
وہ چائے کی پیالی میں
تنہائی کو گھول کر پیتے ہیں،
اور ہر گھونٹ میں
کسی بھولے لمحے کی نمی چھپاتے ہیں۔
انہیں موسموں کی کوئی پروا نہیں
گرمی ہو یا سردی،
ان کے اندر تو بس اک ایک سا موسم رہتا ہے —
بے نام، بےرنگ، بےآواز
پنکھا چل رہا ہے، مگر ہوا روٹھ گئی،
گرمی میں نیند بھی جیسے کہیں چھپ گئی!
رات بھر کروٹیں بدلیں، پسینہ دوست بنا،
نیند کو بلایا، وہ کولر کے ساتھ چلی گئی!
ایسی گرمی ہے کہ خواب بھی پسینے میں بہہ گئے،
نیند آئی تو مچھر جگا گئے!
گرمی میں نیند بھی شرارتی ہو جاتی ہے،
آنکھ بند کرو تو لوڈشیڈنگ آ جاتی ہے!
تکیہ بھی گرم، کمبل بھی غائب،
نیند نے کہا: چائے پی لو، مجھ سے امید نہ رکھو!
کاش نیند بھی یو پی ایس پہ ہوتی،
تو گرمی میں سکون کا وعدہ نبھاتی
چائے نہ ملی تو دن کا آغاز نہیں ہوتا،
یہ عشق ہے، کوئی عام مذاق نہیں ہوتا۔
سنا ہے محبت میں نیند اُڑ جاتی ہے،
ہم نے تو چائے پی کر بھی راتیں جاگی ہیں!
اک پیالی چائے کیا ملی،
دنیا حسین لگنے لگی!
جو دل سے اتر جائے، وہ لوگ بھول جاتے ہیں،
پر جو چائے سے اتر جائے، وہ کپ تک نہیں بچاتے!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain