مغرور تھا وہ، صدا کی طرح سنائی تو دیتا، مگر سُنا نہ گیا لبوں پہ تھا نورِ کلام کا زعم دل میں مگر، اک زخم چھپا نہ گیا ہر آئینہ اُس سے شرمندہ تھا کہ عکس میں صرف "میں" نظر آتی تھی وہ خود کو خُدا سے بھی بڑا جانے مگر بندگی، نبھائی نہ گئی نہ حرف میں سچ، نہ لہجے میں نم نہ ذکر میں ذوقِ خضوع رہا غرور کی راکھ نے ڈھانپ لیا جو دل کبھی مثلِ شمع جلا نہ جھک سکا، نہ مٹ سکا نہ عشق کی گلی سے گزر سکا کہ جھکنے کا ہنر، صوفی جانیں وہ مغرور، بس خود پہ مر مٹا
بس کر، یہ دنیا تجھے سمجھ نہ پائے گی تو ان جانوں میں شامل ہے جو خاک میں گم ہو کر حق کی خوشبو بن جاتے ہیں خود کو مت رُلا، بس یادِ حق میں بھیگا رہ ہر درد کو درود بنا ہر آہ کو "ہُو" میں بدل پھر دیکھ، کیسا سکون اترے گا…
نہ چاہا کسی کو یوں دل سے کبھی، جیسے تجھے اے رب، پکارا ہے ہم نے۔ نہ کوئی چہرہ سکون دے سکا، نہ کوئی صدا، جو تُو دے سکا۔ تُو ملا، تو سب کچھ ملا، تُو نہ ہو، تو کچھ بھی نہیں۔ دنیا کی ہر خوشی فانی لگی، تیرا ذکر ہی دائمی سکون بنا۔ محبت تیری، اک روشنی سی ہے، جو اندھیرے دل میں صبح کر دیتی ہے۔ نہ بدلے کی آس، نہ مقصد کوئی، بس تیری رضا، یہی طلب ہے کوئی۔ قدم جو ڈگمگائے، تُو تھامتا ہے، اشک جو گرے، تُو چنتا ہے۔ میں گناہگار، تُو غفّار ہے، میں فقیر، تُو پروردگار ہے۔ تُو جس دن ناراض ہو جائے، میرے لیے وہی دن قیامت ہے!
جب وقت ٹھہر جائے گا، سانسیں رک جائیں گی، وہ گھڑی، جب ہر صدا خاموش ہو جائے گی۔ نہ باپ، نہ بیٹا، نہ یار ساتھ دے گا، ہر شخص فقط اپنا حساب لے کے کھڑا ہو گا۔ آنکھوں سے گریں گے پچھتاوے کے آنسو، جن کو چھپایا تھا، وہ سب لکھے ہوں گے حرف بہ حرف۔ کیا کچھ کمایا؟ کیا کھو دیا؟ کس کو رُلایا؟ کس سے جھوٹ کہا؟ نہ کوئی زبان صفائی دے گی، نہ کوئی طاقت رہائی دے گی۔ بس اک ہی صدا ہر دل سے نکلے گی: "کاش! یہ دن آنے سے پہلے لوٹ آتا...
ہم جو سمجھتے ہیں، وہ حقیقت نہیں ہوتی، دکھ اور خوشی صرف دل کی حالت ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتی ہیں۔ دنیائے فانی میں انسان ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھو رہا ہوتا ہے، مگر جو کچھ باقی رہتا ہے، وہ صرف دل کی سکونت ہے۔ ہم جو باہر کی روشنی تلاش کرتے ہیں وہ دراصل ہمارے اندر ہی موجود ہے، جو ہم کبھی محسوس نہیں کرتے۔ چاند کی چمک سے زیادہ اہم ہے دل کی چمک، جو خود سے سچی محبت کو سمجھے، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔
رات کی خاموشی میں دل کی آواز سنائی دیتی ہے، جہاں خوابوں کے دروازے کھلتے ہیں، اور حقیقت چھپ جاتی ہے۔ چاند کی روشنی، تاریکی کو اپنی گلیوں میں بسانے کی کوشش کرتی ہے، مگر رات کے سناٹے میں دل کی حقیقت بھی خاموش رہتی ہے۔ رات کا سکون، دل میں بے شمار سوالات چھوڑ جاتا ہے، یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنے اندر کی حقیقت کو تلاش کرتا ہے۔ ہر رات، دل کی گہرائیوں میں ایک نیا راز دفن ہوتا ہے، جو صرف دل کی آواز سے باہر آتا ہے، جب چاند اپنی روشنی کھو دیتا ہے۔ رات کا اندھیرا، دل کے ٹوٹے حصوں کو جوڑتا ہے، یہ سکون کا لمحہ ہے، جب انسان اپنی سچائی کو سامنے لاتا ہے۔
جب دل کی خاموشی میں روشنی آئی پھر ہر درد، ہر غم، خود میں سمٹ آیا رگوں میں سرور کی ایک لہر دوڑ گئی اندر کی گہرائیوں میں سکون کا سمندر چھا گیا دریا کی طرح بہتے ہیں ہم، بغیر کسی کنارے کے ہر لمحے میں سکون ہے، اور ہم ہیں اس کے مسافر خود کو کھو کر، خود کو پایا یہ سکون کی روشنی دل میں سمایا جہاں تک جانے کی آرزو تھی، وہ دروازہ کھل چکا اب جو کچھ ہے، وہ بس دل کا سکون ہے گزرنے دو ہر خیال کو، جیسے ہوا کا رشتہ دل کی گہرائیوں میں، بس سکون کا تاثر ہے
جسم مٹی کا ہے، راہِ فنا کا مسافر، روح نُوری چراغ، روشنی کا ساغر۔ جسم بکھرتا ہے، وقت کی خاک میں، روح بہتی ہے، کسی ازلی خاک میں۔ جسم زنجیر ہے، خواہشوں کا اسیر، روح آزاد ہے، ایک پرندہ دلگیر۔ جسم کہتا ہے مجھے لمس کی طلب، روح کہتی ہے مجھے سچ کی طلب۔ جسم مٹ جائے گا، خاک میں جا سوئے گا، روح باقی رہے گی، روشنی میں کھوئے گا۔
منظر بدلتے رہتے ہیں، ہوا رخ اپنا موڑتی ہے، کبھی خوشبو چھو کر گزرتی، کبھی خامشی میں بولتی ہے۔ لمحے پل میں بکھر بھی جائیں، پل میں سب جوڑ بھی دیں، کبھی خوابوں کی دہلیز پر رکیں، کبھی حقیقت میں کھو بھی دیں۔ دل کی دنیا نازک سی ہے، پل میں مہکے، پل میں بجھے، کبھی امیدوں کے دیپ جلیں، کبھی خواہشیں راکھ بنے۔ یہ سفر ہے وقت کے ہاتھوں، جو تھمتا نہیں، بس چلتا رہے، کبھی سایہ دے کر بہلائے، کبھی دھوپ میں تنہا کرے۔
سوچوں کے دریا بہتے رہیں، ہر پل کوئی نیا خیال ملے، کبھی روشنی کا سنگ رہے، کبھی اندھیروں کا جال ملے۔ یہ نفسیات کا کھیل ہے سب، جو پل میں رنگ بدل دے، کبھی خوابوں کی دنیا دے، کبھی سب خواب مسل دے۔ بدلتی عادت، بدلتا جذبہ، اک پل میں کیا سے کیا ہو جائے، کبھی ہنستی دنیا اجڑ بھی جائے، کبھی اجڑا دل بسا ہو جائے۔ یہ دل، یہ دماغ، یہ یادیں سب، ہر لمحہ کچھ سکھاتے ہیں، کبھی خود کو کھو کر پاتے ہیں، کبھی پا کر بھی کھو جاتے ہیں۔