کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی ہماری کھوج میں رہتی تھیں تِتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم بھی زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر تمہارے عشق میں کتنے نِڈھال تھے ہم بھی پروین شاکر
کبھی خود پہ______ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی تو_________ ہر اک بات پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا آج_________ یہ کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے___________ سوالات پہ رونا آیا کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست سب کو____ اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
*🎗 یہ نفسیاتی مسلہ ہے. اگر خواتین گھر کو چمکانے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی چمکاتی رہا کریں تو خاوند کی عدم توجہ اور آوارگی جیسے مسائل بغیر تعویز دھاگے کے ٹھیک ہو جائیں... The end
موسم گرما میں , چھائے ہوئے بادلوں کے نیچے ٹھنڈے اجالوں جیسا . میں نے اسکی خوب تعریف کی اور تاکید کہ بس اسی طرح اہتمام رکھنا ہے. *🎗 میری تد بیر کارگر رہی . اسکا شوہر اسکی طرف مائل ہو گیا . اس بچی نے میرے اس " عمل " کی بہت تعریف کی جو میں نے کیا ہی نہیں تھا . طلسم کی جوت تو اس نے خود جگائی تھی .* *🎗 ہمارے ہاں اکثر خواتین گھر داری اور بچوں میں ایسی مگن ہوتی ہیں کہ خود کو بھول جاتی ہیں . اور اپنی کشش کھو بیٹھتی ہیں . باہر نکلتے وقت تو خوب بن سنور کر نکلتی ہیں لیکن گھر میں " ماسی " بنی رہتی ہیں کمزور کردار کے مردوں کی نظریں " باہر " کے لش پش چہروں کی جگ مگ میں بھٹکنے لگتی ہیں .بسا اوقات تو طلاق تک نوبت جا پہنچتی ہے* Nxt
*🎗وہ پھر آئی میں نے ایک تدبیر سوچ لی تھی .میں نے اسے پانچ سو کا ایک نوٹ دیا اور کہا میں نے تمہارے لیے ایک عمل شروع کیا ہے . تم ان پیسوں سے اپنے لیے خوبصورت سی چوڑیاں خریدو , لپ سٹک , کریم اور خوشبو بھی . تم نے یہ کرنا ہے کہ ہر شام خوب بن سنور کے رہنا ہے . میرے عمل سے تمہارا بندہ کھنچا چلا آئے گا . بس تم نے خوشدلی سے اسکا استقبال کرنا ہے.* اگلے ہی دن وہ عصر کے وقت اپنی بچی کے چیک اپ کے بہانے میرے کلینک پہ آئی . صاف ستھرے کپڑے, ہلکا سا میک اپ ہاتھوں میں سات رنگی اور رو پہلی چوڑیاں آنکھوں میں کجلا ................ گہری سانولی رنگت کے باوجود اسکا چہرہ نکھرا نکھراتھا . Nxt
اسکے چہرے پہ ایک سایہ سا لہرا کر گزر گیا . اسنے بتایا کہ اسکا خاوند ایک لا پرواہ اور عیاش آدمی ہے . اپنی محنت کی کمائی ادھر ادھر عورتوں پر اڑا دیتا ہے . اسے کبھی خرچ دیتا ہے کبھی اسکی محنت کی کمائی بھی لے اڑتا ہے . پھر وہ بڑی لجاحت سے بولی " *سید دا بال ایں کوئی تعویذ دھاگا ای کردے جے میرا بندہ ٹھیک ہو جاوے . میں شیرینی دیساں "* (سید زادے ہو کوئی تعویز دھاگا دے دو کہ میرا خاوند راہ راست پہ آجائے. میں آپکا منہ میٹھا کرواوں گی ) اسکے الفاظ حسرت , امید اور منت اور التجا میں ڈوبے ہوئے تھے . مجھے اس پہ بہت ترس آیا .وہ میری بیٹی کی عمر کی تھی. مجھے لگا میرے سامنے میری بیٹی بیٹھی ملتجی نظروں سے میری جانب دیکھ رہی ہے . Nxt
اگلی بار وہ پھر آئی اسکا حال پہلے جیسا ہی تھا البتہ اسکی بچی کو کافی افاقہ تھا . اسنے دوا لی اور پھر پلو میں بندھے چند مڑے تڑے نوٹ نکالے اور کہنے لگی کہ ابھی اسکے پاس یہی ہیں .یہ رکھ لیں . وہ گندم کی کٹائی کا موسم تھا , اسنے بتایا کہ وہ کھیتوں میں کٹائی کے دوران گرے پڑےگندم کے سٹے اکھٹے کرتی ہے , اسکے پاس کافی سٹے جمع ہو گئے ہیں .ایک دو دن بعد وہ انہیں کوٹ کر دانے نکالے گی اور انہیں بیچ کر میری پائی پائی چکا دے گی . میں نے پوچھا تمہارا خاوند کیا کرتا ہے ? وہ بولی " وہ جی محنت مزدوری کرتا ہے " "وہ تمہیں بچی کے دوا دارو کے پیسے نہیں دیتا ?" میں نے پوچھا . Nxt
میں نے علامات کے مطابق اسے دوا دے دی . اسنے پیسے پوچھے , میں نے اسے اپنی فیس بتائی . اسنے اپنے پلو میں بندھے چند مڑے تڑے نوٹ نکالے اور بغیر گنے مجھے پکڑا دیے. اور کہنے لگی ڈاکٹر صاحب گن لیں , جتنے کم ہیں میں بعد میں دے دونگی . نظر آرھا تھا کہ وہ میری فیس سے بہت ہی کم پیسے تھے . مجھے اس پہ بہت ترس آیا . میں نے اسکے مڑے تڑے نوٹ بغیر گنے اسے واپس کر دیے اور کہا . جب تمہارے پاس پیسے ہوں اس وقت اکٹھے دے دینا . Nxt
وہ اٹھارہ انیس سال کی دبلی پتلی کمزور سی لڑکی ایک ننھی سی بچی کی ماں تھی . بے رونق چہرہ , میلی کچیلی ,ویسے ہی میلے کچیلے کپڑے , اسکی بچی کا حال بھی ایسا ہی تھا . بچی سوکڑے کے مرض میں مبتلا تھی . میں جب اسکی بچی کا فزیکل معائنہ کر رہا تھا تو واضح بدبو محسوس کر رہا تھا .یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ بو بچی سے زیادہ آرہی ہے یا ماں سے . Nxt