خلیل کو لوگ ہاسپٹل لے گئے. اس کے سر پر گہری چوٹیں آئی تھیں. افضال واردات کے بعد روپوش ہو گیا.
اللہ کرے خلیل بچ جائے ورنہ افضال کو پھانسی ہو جائے گی. نازو کو اس سارے جھگڑے کا علم ہوا تو اس کا رو رو کر برا حال ہو گیا.تھا افضال کچھ بھی ہے- مگر سر کا سائیں ہے افضال ہے تو ہی, سر پر چھت ہے یہ گھر ہے- اگر افضال کو کچھ ہوگیا تو؟ نہیں نہیں افضال کو کچھ نہیں ہوگا کس کے سہارے جیوں گی. وہ ہے تو نازو سکون کی نیند سو سکتی ہے. وہ پاس ہوتا ہے تو حفاظت کا احساس بھی ساتھ رہتا ہے. انہی سوچوں کے ساتھ نازو ساری رات جاگتی رہی. یہ جانے بغیر کہ افضال اب اس کی ریکی کر رہا تھا. خلیل کا بٹھایا شک اس کے ذہن پر مسلط ہو چکا تھا
Nxt
جس پر خلیل نے افضال پر جملہ کسا کہ تو کب سے غیرت والا ہوگیا. تو تو اپنی بیوی کی کمائی کھاتا ہے اور کمائی بھی وہ جو تیری بیوی محنت کرتی نہ اس کے پیسے میں دیتا ہوں. محنت سمجھ آتی نہ تجھے؟ بس یہ بکواس کرنی تھی خلیل نے کہ
افضال نے اس کو پیٹنا شروع کر دیا اتنا پیٹا کے اس کا بھرکس نکال دیا. خلیل نے جس دن نازو کا راستہ روکا تھا ہاتھا پائی میں نازو کے کان کی بالی خلیل کے ہاتھ لگ گئی تھی جو اس نے اپنے پاس رکھ لی تھی. چھترول سے بھی خلیل باز نہ آیا اور افضال کو بولا تھا یہ بالی کل آئی تیری بیوی میرے پاس تو رہ گئی تھی, اور خلیل خبیث ہنسی ہنسنے لگا. افضال نے طیش میں آکر خلیل کے سر میں لوہے کی راڈ دے ماری اور خود بھاگ گیا.
Nxt
آج نازو نے اپنے دل میں ایک عزم کیا. اس نے سوچ لیا تھا کے اب وہ افضال کو جوئے کے لیے پیسے نہیں دے گی.
کچھ پیسے جوڑ کر وہ سلائی مشین لے گی اور سلائی کیا کرے گی. اس طرح نازو اپنے بیٹے کے پاس تو رہے گی. اس ساری زندگی کی جنگ میں اس کا معصوم بیٹا پس رہا تھا. ************************
آج افضال نے سوچا تھا کہ وہ آخری بار جوا کھیل لیتا ہے. کھیلنے میں کیا ہے اللہ کرے آج جیت جاوں تو کوئی چھوٹی موٹی دوکان کھول لوں گا اب سے نازو کو پرائے گھروں میں کام کرنے نہیں دوں گا. آج جیسے ہی افضال جوا کھیلنے گیا تو خلیل سے سامنا ہوگیا خلیل نے افضال کو کھیلنے کی پیش کش کی تو افضال نے اس کی یہ پیش کش مسترد کردی
Nxt
کچھ بچے اس کو کھلونے دے بھی دیتے اور کچھ بچے اس کو مارتے تو دل دکھتا میرا۔۔۔۔۔۔۔ آج پھر سے بارش ہو رہی تھی. ایسا لگتا تھا کہ آج تھمے گی ہی نہیں بارش. لیکن نازو بہت خوش تھی کیوں کہ بارش کی وجہ سے وہ آج اپنے گھر تھی اور اپنے بیٹے ظفر کے لاڈ اٹھا رہی تھی. وہ پوچھتا تھا اماں روز مجھے کیوں چھوڑ کر چلی جاتی ہو؟ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے جاتی؟ اماں مجھے ڈر لگتا ہے اکیلا رہنے سے. اماں مجھے اپنی باہوں میں کیوں نہیں چھپاتی
یہ سب الفاظ نازو کا کلیجہ چیر دیتے.
ظفر کے الفاظ سن کر وہ اور اس کی ساس کی آنکھیں ساون بھادو کی طرح برس رہی تھی. لگتا تھا آج آسمان بھی ان کے دکھ میں برابر کا شریک تھا.
Nxt
نازو اس بات پر راضی نہیں تھی کہ اس دنیا میں کون کسی کا ہوتا ہے. کہیں اس کی عزت پر یا اس لڑکے کی عزت پر کوئی حرف نہ آجائے.
لیکن مہرو باجی نے اسے مطمئن کر دیا تھا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازو گھر آئی تو ظفر رو رو کر سو چکا تھا اور بوڑھی ساس چارپائی پر بیٹھی تھی. نازو کے آتے ہی اس کی ساس پھٹ پڑی, کدھر مرگئی تھی. صبح کی نکلی ابھی واپس آئی ہے. اپنے بیٹے کو ساتھ لے جایا کر مجھ سے نہیں سنبھالا جاتا.
اور وہ کہتی, اماں ساتھ لے تو جاتی تھی لیکن ظفر ضد کرتا مالکوں کے گھر کھلونے مانگتا.
Next
آج نازو باجی مہرو سے گلے لگ کر بہت روئی تھی کہ گھر جا کر کچھ بتاتی تو بات کہاں سے کہاں پہنچتی. نازو نے باجی کو منع کیا تھا کسی کو بھی کچھ بتانے سے. افضال کو پتا چلتا تو وہ اور خلیل گتھم گتھا ہوجاتے. لیکن نازو سوچتی کہ اگر افضال کہیں خود کام کرتا تو خلیل جیسا اوباش نازو کی طرف دیکھتا ہی نہیں. یہ سب سوچ کر دل ہی دل میں اپنے میاں کو برا بھلا کہتی اور اللہ سے دل ہی دل میں افضال کے لیے دعائیں کرتی.
باجی مہرو نے نازو کو سمجھایا تھا کہ کتوں کا کام ہوتا ہے بھونکنا اور وہ بھونکتے ہی ہیں. تو دھیان نہ دے.
میں اپنے بیٹے رضوان سے کہہ دوں گی, کل سے وہ تم پر نظر رکھے گا. تب تک جب تک تم بس میں سوار نہیں ہوجاتی.
Nxt
وہ سدا کا جذباتی تھا لیکن اس کی ایک عادت نازو کو بھاتی تھی کہ جب جذبات میں آکر نازو کو برا بھلا کہتا تھا تو بعد میں اس کو افسوس بھی ہوتا تھا اور آکر نازو سے معافیاں مانگتا تھا. نازو تو تھی ہی سدا کی مکھن طبیعت سو اس کی ہر خطا معاف کردیتی تھی اور اس کو بولتی کہ افضال تو جوا چھوڑ کر کام کیوں نہیں کرتا؟ تو وہ کہتا کروں گا کچھ, پکا تجھے کچھ ایسا کر کے دکھاوں گا کہ تیری سوچ ہے.
تجھے باولی کردوں گا. بس تو دعا کر, اور وہ اللہ سے افضال کی ہدایت مانگتی تھی. خلیل کی آج والی حرکت پر نازو کا دل بہت دکھا تھا. اگر ہمسائے والی باجی مہرو نہ آ جاتی تو خلیل, نازو کے ساتھ کچھ بھی غلط کر سکتا تھا. اس سے آگے نازو سے سوچا ہی نہیں جا رہا تھا.
Next
میرے ساتھ چل تجھے مہارانی بنا دوں گا اس بات پر نازو کو غصہ آیا تھا اور اس نے ہمت کر کے خلیل کے موںھ پر ایک تھپڑ جڑ دیا تھا. تھپڑ کھا کر خلیل طیش میں آ گیا تھا اور اس نے نازو کو پکڑ لیا تھا. سب کچھ اچانک ہوا تھا یہ سب ہوتا دیکھ نازو بد حواس ہوگئی تھی لیکن تھی تو وہ عورت، کہاں تک خود کو بچاتی.
کس کس سے بچاتی؟
نازو کے چلانے کی آواز پر محلے والی مہرو باجی باہر نکلی. مہرو کو آتا دیکھ خلیل بھاگ گیا. اس کو بھی تو اس کی فکر نہیں تھی جو اس کا محرم تھا جس کے ساتھ بیاہ کر کے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی. افضال 45 سال کی عمر میں بھی وجیہہ تھا لیکن اس نے کبھی نازو کی قدر نہیں کی تھی.
Nxt
خلیل اس گاوں کا اوباش تھا جو آتی جاتی لڑکیوں کے راستے روکا کرتا تھا. آج تو خیر سے خلیل نے نازو کا بھی راستہ روک لیا تھا.
اور نازو کے بھیگے سراپے کو کافر نظر سے دیکھ رہا تھا. نازو اپنے دوپٹے سے اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
خلیل نے نازو پر جملہ کسا تھا جس بدتمیزی پر نازو نے اس کو آڑے ہاتھوں لیا تھا. لیکن خلیل سدا کا بے حیا تھا, اس کو کہاں عقل آنی تھی. یہ تو اس کا روز کا کام تھا. لڑکیوں کے راستے روکنا ان پر جملے کسنا.
لیکن آج تو خلیل نے حد ہی کر دی تھی. سگریٹ کا زور دار کش لے کر دھواں نازو کے موںھ پر چھوڑا تھا اور نازو سے بولا تھا کہ تم خوبصورت ہو جوان بھی ہو پھر گھروں میں کام کیوں کرتی ہو
Nxt
خیالوں اور اپنوں کی یادوں کا تسلسل ایک بار پھر ٹوٹ چکا تھا. وہ عالیہ بی بی کے گھر سے نکلی تو بارش پھر سے زور پکڑ چکی تھی. گھر تک آتے آتے وہ پوری بھیگ چکی تھی. اس کا حدف بس اتنا تھا کہ وہ جلد از جلد گھر تک پہنچ جائے. موسم خراب تھا اس لیے بھیگتی ہوئی تقریبا بھاگتی ہوئی جا رہی تھی. دن کے تین بج چکے تھے اور اس کا بیٹا ظفر گھر پر اکیلا تھا اور بھوکا بھی تھا. ساس بھی تو بستر سے لگی ہوئی تھی. ظاہر ہے گھر وہ جاتی، تو کھانا اترتا ان کے پیٹ میں بھی. وہ مکمل بھیگی ہوئی تھی. ویسے بھی سردیوں کی بارش بڑی بے رحم ہوتی ہے. ٹھٹھرتی سردی سے وہ کانپ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اللہ غریب کسی کو نا بنائے. غریب تو پیدا ہی نہ ہو. اگر پیدا ہو بھی جائے تو مر جائے. وہ یہ سب باتیں سوچتی جا رہی تھی کہ راستے میں اسے خلیل مل گیا.
Nxt
شادی سے ایک رات پہلے وہ ساری رات نازو نے روتے بلکتے گزاری تھی. اللہ سے شکایت کر رہی تھی کہ کیوں اس کے ابا مرگئے تھے.
وہ روئے جا رہی تھی, ابا جی کیوں مر گئے آپ, کیوں چھوڑ دیا ابا جی آپ نے اپنی نازو کو. آکر دیکھو ابا جی تمہاری نازو کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا.
اگر آج سلطان احمد زندہ ہوتے تو زندگی شاید کچھ اور ہوتی. لیکن اب تو جو قسمت میں لکھا تھا وہی ہونا تھا. ویسے بھی بڑے بزرگ بول گئے ہیں کہ جو لاڈلے ہوتے ہیں نہ اپنے اماں ابا کے, زمانہ ٹھوکروں میں بھی انہی کو رکھتا ہے اور نازو بھی زمانے کی ٹھوکروں میں آ گئی تھی.
Nxt
"وہ خوش تھی نہیں تھی، کیا فرق پڑنا تھا. عورت کا تو کام ہی ایڈجسٹ کرنا ہے اور وہ کر ہی لیتی ہے. ویسے بھی بر پسند کرنا شریف خاندانوں کی بیٹیوں کا کام نہیں ہوتا۔
سو جس کھونٹے سے باندھ دیا جائے, بیٹی کا فرض ہوتا ہے بندھ جائے. مرے باپ کی پگڑی بھی تو سرخرو کرنی ہوتی ہے بیٹیوں کو. یہ بیٹیاں ہی تو ہوتی ہیں جو اپنے ابا کا مان ہوتی ہیں, ورنہ بیٹے تو اس سب سے بری ہوتے ہیں. نازو نے بھی اپنے مرے باپ کو سرخرو کر دیا تھا اور کوئی حرف زبان پہ لائے بنا افضال کی ہوگئی تھی.
نازو کو افضال کے ساتھ رخصت کردیا گیا تھا. نازو کی ماں بیٹی کے جانے کے بعد بہت روئی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ نازو کی بارات نہیں نکلی تھی, اس کے تو ارمانوں کا جنازہ نکلا تھا.
Nxt
نازو! بہت روئی تھی۔ منت کی تھی اپنی اماں کی۔
کے وہ بوجھ نہیں بنے گی کسی پر بھی۔ وہ کہیں لوگوں کے گھر کام کاج کر لے گی۔ کسی کی جوتیاں اٹھائے گی۔ لیکن افضال سے اس کی شادی نہ کرائی جائے۔
نازو! کی اماں بھی کیا کر سکتی تھی۔ پہلے کچھ بولی تھی جو اب بولتی۔
عمران! کی شادی ہو گئی تھی زرینہ سے-
اور نازو! کی افضال سے۔ عمران بہت خوش تھا اپنی بیوی زرینہ کے ہمراہ۔ اس کی مراد بر آئی تھی۔
کہ جو اس نے چاہا تھا آخر پا لیا تھا۔
اللہ پاک نے زرینہ کو اس کی کر دیا تھا ۔لیکن کیا نازو! خوش تھی؟
Nxt
کیا برائی تھی۔ افضال میں؟
مناسب صورت شکل کا تھا۔
ویسے بھی۔ نازو، کون سا آسمان سے اتری پری تھی۔ تو کیا ہوا جو افضال کی عمر بڑی تھی۔ اور وہ 45 سال کا تھا۔ تو کیا ہوا جو نازو! صرف 19سال کی تھی؟ تو کیا ہوا جو افضال کی بیوی شبانہ بچے کو جنم دیتے دنیا سے رخصت ہو گئی تھی-
افضال! کی ایک بیٹی، تھی: عروسہ بن ماں کی بچی، اس کو بھی ماں مل جانی تھی۔ یہ سب قربانی نازو! کو دینی تھی۔ کیوں کے عورت، بنی ہی قربانی کے لیے ہے۔
مرد قربان تھوڑی ہوتے آج کے معاشرے میں سو
عمران کی شادی زرینہ سے ہوگئی تھی-اور اسی رات نازو! کو بھی افضال کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ لگے ہاتھوں۔
Nxt
لیکن عمران! کی ماں اور دادی نے رشتا کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ کسی صورت تیار نہ تھیں۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی- اور وہ وجہ یہ تھی۔ کہ وہ لوگ وٹا سٹا کرنا چاہتے تھے۔ مطلب کے عمران! کو وہ زرینہ کا رشتہ دے دیتے۔ لیکن ساتھ ہی افضال! زرینہ کے بھائی کے لیے نازو! کا رشتہ مانگ رہے تھے-
جب ماں، اور دادی، نہیں مانی۔ تو عمران! نے فنائل پی لیا - وہ تو اچھا ہوا وقت رہتے ہسپتال لے گئے تھے۔ اس لیے بچ گیا تھا- ایک ہی بیٹا تھا۔
خاندان کا ایک ہی "چشم چراغ" سلطان احمد کا اکیلا وارث۔
اس کو کچھ ہوجاتا تو؟
(سلطان احمد کی پیڑھی کیسے چلتی؟ اس لیے نور بانو، نے رشتے کے لیے ہاں کردی تھی۔
Nxt
جوان جہاں بچی تھی۔ وہ سوچ رہی تھیں۔ کیسے اس کو دنیا کے سرد و گرم سے بچائے۔ اس لیے وہ جلد از جلد۔
نازو! کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھیں۔
ادھر عمران! مکمل بگڑ چکا تھا۔ جو تھا گھر میں،وہ سب لے گیا تھا ۔
ماں" سے کاروبار شروع کرنے کا بول کر۔ وہ بھی پیسے لے گیا تھا۔ جو (سلطان احمد) اور ان کی اہلیا، نے نازو! کے بیاہ کے لیے رکھے ہوئے تھے۔
عمران ایک زرینہ نامی لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ جس سے فیس بک پر دوستی ہوئی تھی۔ جو غریب گھر کی تھی۔اسی سے عمران! شادی کرنا چاہتا تھا۔
Next
نازو! کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
سلطان، احمد،کیا گزرے۔نازو! پر تو قیامت گز گئی۔
گھر میں کھانے کے لالے پڑنے لگے۔ عمران، بھی ابھی پڑھ رہا تھا۔ اوپر سے غلط لوگوں کی صحبت میں آگیا تھا۔ ایسے میں سب کی نظریں اٹھنے لگی۔
سلطان احمد کے گھر کی طرف۔جن میں ایک 80 سالہ حاجی صاحب بھی تھے۔ جو بھلا کرنا چاہتے تھے۔
(سلطان احمد) کے خاندان والوں کا۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ کے اصل میں نظر تو نازو! پر تھی۔
یہ سب دیکھ کر نازو! کی دادی نور بانو، ڈر گئی تھیں۔
Nxt
سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ ایک دم قیامت گزر گئی تھی اس خاندان پر۔ (سلطان احمد) پینشن لینے کے لیے گھر سے نکلا تو، روڈ حادثے کا
شکار ہوگیا۔ اور اس سے نبردآزما نہ ہوسکا۔
اور اپنے مالک، حقیقی،سے جا ملا۔
جب باپ، زندہ ہو تو ایسا لگتا ہے۔ سارا جہاں مٹھی میں ہے:
لیکن جب یہ سایہ سر سے اٹھ جائے تو- انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ جینا مشکل ہوجاتا ہے انسان کا۔
خاص کر بیٹیاں، تو بیچاری ماری ہی جاتی ہیں۔
اس لیے تو غالب، فرما گئے ہیں۔ کہ سب ہی اچھے ہیں۔
بس خدا برا وقت نہ لائے ۔
باپ نہ ہو تو، مومن نظر والے بھی کافر نظر سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
Nxt
نازو! پر بھی وقت قہر بن کر ٹوٹا تھا۔ لیکن رب کی مرضی کے آگے کوئی کیا کرسکتا تھا
وہ ایک طوفانی رات تھی۔ جب آندھی آئی تھی۔ اور سب کچھ تہس نہس کر گئی تھی۔
آج صبح کو (سلطان احمد) گیا تو اپنے پیروں پر تھا-لیکن جب لوٹا تو،
************************
دروازہ زور زور سے بج رہا تھا۔ اری او نازو! باہر تو دیکھ تیرا ابا آیا ہوگا۔ دروازہ کھول دے۔
نازو! باہر جیسے ہی دروازہ کھولنے گئی، تو سامنے کا منظر دیکھ کر سن ہوگئی تھی۔ کیوں کہ دروازے پر اس کا جان سے پیارا ابا! نہیں تھا۔اس کی میت تھی۔ جو کچھ لوگ اندر گھر میں لا رہے تھے۔
Nxt
وقت کتنا بدل گیا تھا. وقت سے بڑی بے رحم چیز کوئی نہیں ہوتی. یہ وقت ہی ہوتا ہے جو اچھا چل رہا ہو تو انسان پھولوں کی سیج پر سوتا ہے, لیکن جب یہ وقت برا چل رہا ہو تو زندگی تپتے تانبے کا بستر بن جاتی ہے,
اور انسان کو ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے. یہ ہی وقت، نازو پر بھی قہر بن کر ٹوٹا تھا لیکن رب کی مرضی کے آگے کوئی کیا کر سکتا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°nxt
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain