Damadam.pk
SaNaa+M's posts | Damadam

SaNaa+M's posts:

SaNaa+M
 

سنا ہے تعریفوں کے پل کے نیچے مطلب کی ندیاں بہتی ہیں

SaNaa+M
 

نہ ظاہر ہوئی تُم سے، نہ بیاں ہوئی ہم سے
بس سُلجھی ہوئی آنکھوں میں اُلجھی رہی محبت

SaNaa+M
 

نقاب کیا چھپائے گا شباب حسن کو
نگاہ عشق تو پتھر بھی چیر دیتی ہے

SaNaa+M
 

سب بہن بھائ سچ سچ بتائیں
#قرآن_پاک_آخری_بار_کب_کھولا_تھا؟
اگر جواب دینے میں شرم محسوس ہو رہی ہو تو ابھی بھی وقت ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر لیں۔ روز قرآن پاک کی تلاوت کیا کریں گے ۔
چاہے ایک ہی لائن روانہ تلاوت کریں ۔

SaNaa+M
 

*🌴مُختـــــصر پُـــر اثَـــر🌴*
*اپنے ارادوں میں*
*مخلص رہو تم*
*اللّه کی مدد کو اپنے*
*ساتھ پاؤ گے*
*🥀ارشــــــاد نــــوری🥀*

SaNaa+M
 

*🌴مُختـــــصر پُـــر اثَـــر🌴*
*توبہ روح کا غسل ہے*
*جتنی بار کروگے*
*روح میں اتنا ہی*
*نکھار آئے گا*
*🥀ارشــــــاد نــــوری🥀*

SaNaa+M
 

*🌴مُختـــــصر پُـــر اثَـــر🌴*
*نماز کبھی نہ چھوڑنا*
*قبروں میں کروڑوں لوگ*
*ترس رہے ہیں کہ دوبارہ*
*زندگی مل جائے تاکہ ﷲﷻ*
*کے لیے ایک سجدہ کرسکیں*
*🥀ارشــــــاد نــــوری🥀*

SaNaa+M
 

پیار_بانٹــنے_کی_ . کوشــش _کرو___
ســـــــــرکار.................!!
نفرتیں_تو_پہلے_ہی_عـــــــروج_پر_ہیں....!!

SaNaa+M
 

😘❤بلاؤ آج سب عاشقوں کو غموں کی محفل لگاتے ھیں...
تم غالب کی کتابیں اٹھاہ لاؤ ہم دل کا حال سناتے ھے..❤❤

SaNaa+M
 

کبهی آنسوں کبهی سجدےکبهی ہاتهوں کا اٹھ جانا...!
"اقبال"
خواہشیں ادهوری ہوں تو رب کتنا یاد آتا ہے...!

SaNaa+M
 

‘‘ مؤذن نے اپنی پگڑی اتار کر اپنے گلے کے اردگرد لپیٹ لی اور واپسی کا سفر شروع کردیا۔
’’میں کسی سے کچھ بھی نہیں کہوں گا۔‘‘
ہر قدم پر وہ یہی دہرا رہا تھا۔
(کتاب’’ چھپن چھپائی‘‘ سے اقتباس) —

SaNaa+M
 

’’مولوی کا جنازہ کس نے پڑھایا؟‘‘
’’تم ملاں کے ملاں ہی رہے۔‘‘ ملنگ چلایا۔
’’ارے مولوی صاحب کا جنازہ عام لوگوں نے نہیں پڑھایا۔
کیا تم نے نہیں سنا کہ اگر کوئی عشق میں مبتلا ہوجائے، راز افشا نہ کرے، دوسرے کو بدنام نہ کرے اور اگر اس گھٹن میں مر جائے تو وہ شہید ہے۔
Nxt

SaNaa+M
 

’’عشق کی وراثت منصور یا مجنوں کے لیے ہی نہیں۔ یہ تحفہ اوروں کو بھی مل سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کے اہل ہوں۔‘‘
’’یہ شاید انہوں نے اچھا نہیں کیا۔‘‘
مؤذن نے سرکھرکتے ہوئے کہا۔
ملنگ جلال میں آگیا۔بولا: ’’عشق حقیقی ہو یا مجازی، اس کے آثار ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
منصور نے اناالحق کا نعرہ لگایا تو مجنوں نےلیلیٰ کو بدنام کردیا۔
مولوی تو ان دونوں سے بازی لے گیا۔اس نے تو محبوب کا نام ہی نہیں لیا۔‘‘
Nxt

SaNaa+M
 

وہ ایک ہمدرد انسان تھا اور مولوی صاحب کے اس پر پر بہت احسانات تھے۔ خاموشی سے مسجد میں لوٹا اور مولوی صاحب کی تلاش کے لیے سوچنا شروع کردیا۔
ایک مہینہ اس نے مولوی صاحب کی تلاش کے لیے دن اور رات ایک کر دیئے۔ آخر بہت مشکلوں کے بعد اسے پتہ چل گیا کہ مولوی صاحب فلاں فلاں جگہ ایک خانقاہ میں وقت گزار رہے ہیں۔
ایک دن فجر کی نماز پڑھانے کے بعد مؤذن نے اس خانقاہ کی طرف سفر شروع کیا۔ سارا دن چلتے چلتے تھک گیا اور آخر پچھلے پہر وہ اس جگہ پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ملنگ ایک تازہ قبر پر پانی چھڑک رہا ہے۔ ’’یہاں مولوی صاحب آئے تھے؟‘‘ مؤذن نے پوچھا۔ ’’یہ پڑے ہیں!‘‘
ملنگ نے قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’بس فنا ہوگئے ہیں۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘
Nxt

SaNaa+M
 

خاں صاحب سفر پہ تھے تو بیگم نے مولوی کو بلوا بھیجا۔ اس مرتبہ مؤذن جب خاں صاحب کے گھر پہنچا تو بیگم نے پوچھا کہ وہ پرانے مولوی صاحب کدھر ہیں؟ مؤذن نے تمام ماجرا بیان کردیا کہ وہ پاگل ہوگئے تھے۔ ہر وقت: ’’کیا لکھوں… کیا لکھوں؟‘‘ کہتے رہے۔ آخر وہ یہ بستی چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں۔
عشق پر کبھی کبھی حسن کو ترس آجاتا ہے۔ بیگم نے خط وط تو کوئی نہ لکھوایا، مؤذن کو بھاری رقم دے کر کہا کہ آپ جائیں اور مولوی صاحب کو ڈھونڈ کر بتائیں کہ کہاں ہیں۔ مؤذن کو کچھ کچھ شک ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔
Nxt

SaNaa+M
 

مؤذن نے پھر لوگوں کو اکٹھاکیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے کہ وہ کسی بڑے شہر میں اپنا علاج کرانے کے لیے جارہے ہیں اور مسجد کے معاملات کو مؤذن سنبھالیں گے۔ اس جنون کی حالت میں بھی وہ اس راز کو افشا ہونے سے بچانے کی کوشش میں تھے۔
دس میل دور جنگل میں ایک خانقاہ تھی جہاں ایک ملنگ رہا کرتا تھا۔ مولوی صاحب شہر تو نہ گئے اس خانقاہ پر پہنچ کر وہیں اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ نہ بھوک لگتی نہ چین آتا۔ اندر ہی اندر گھلنے لگے۔ تین ماہ کا عرصہ گزر گیا۔
Nxt

SaNaa+M
 

کنیز مولوی صاحب کو مسجد میں چھوڑ گئی۔ نماز کا وقت آیا۔ مؤذن نے اذان دی۔ مولوی صاحب امامت کرنے لگے اور سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد شروع کردیا: ’’کیا لکھوں… کیا لکھوں؟‘‘
لوگوں نے سوچا مولوی صاحب پر شاید پاگل پن کا دورہ پڑا ہے۔ کسی نے حکیم کو بلایا، کوئی شربت صندل لے کر مولوی صاحب کی خدمت میں لگ گیا۔ دوسرے دن صبح ناشتہ کرنے کے بعد مولوی صاحب قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور ہاتھ میں قلم لے کر پھر ورد کرنا شروع کردیا کہ: ’’کیا لکھوں… کیا لکھوں؟‘‘
Next

SaNaa+M
 

اب کیا تھا مولوی صاحب کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے خط کا مضمون بتانا شروع کیا تو مولوی صاحب لکھنا بھول گئے۔ بار بار یہی کہتے کہ: کیا لکھوں؟ اب جب بھی وہ جو کچھ بھی کہتی اس کے جواب میں مولوی صاحب کی زبان سے یہی جاری رہا کہ: ’’کیا لکھوں؟‘‘
آخر وہ خاتون سمجھ گئی کہ یہ بیچارا مولوی اس کے حسن کی تاب نہ لاسکا ہے اور عشق کے شاہیں نے طائر عقل کے پر نوچ لیے ہیں۔ اس نے اپنی کنیز کو اشارہ کیا کہ مولوی صاحب کو جلدی سے مسجد میں پہنچا دے۔
Nxt

SaNaa+M
 

سبحان پور میں ایک خاں صاحب تھے۔ ان کی بیوی نہایت حسینہ جمیلہ تھی۔ خاں صاحب اکثر سفر میں ہوتے تو ان کی بیوی خط لکھوانے کے لیے مسجد کے مولوی صاحب کو بلا لیتی۔ وہ ہمیشہ پردہ میں رہ کر ہی لکھواتی اور مولوی صاحب کو کوئی ڈش وغیرہ کھلوا کر واپس بھیج دیتی۔
ایک دفعہ وہ نیک بخت پردہ میں بیٹھی خط لکھوا رہی تھی تو ہوا نے پردہ اٹھا دیا۔ مولوی صاحب کی نگاہ اس پردہ نشین سے دوچار ہوگئی۔
Nxt

SaNaa+M
 

*سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ انسان کو اپنے اندر کوئی عیب ھی نہ نظر آئے .......!!!*💞💞💞