If you see a woman respond to a troll, it is never--ever--helpful to respond to her with something along the lines of "just ignore them." She's probably ignoring 100 (or more) for every 1 she chooses to respond to. She knows that the path of least resistance is to ignore the troll & move on. She doesn't need you to inform her of that option. A response is a conscious decision. You are *not* helping when you criticize (because that's what this is) that decision.
خودار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا راشن جو آ رہا تھا وہ افسر کے گھر گیا چڑھتی رہی مزار پہ چادر تو بے شمار باہر جو ایک فقیر تھا سردی سے مر گیا روٹی امیرِ شہر کے کتوں نے چھین لی فاقہ غریبِ شہر کے بچوں میں بٹ گیا چہرا بتا رہا تھا کہ ماراہے بھوک نے حاکم نے کہہ دیا کچھ کھا کے مر گیا
رسول الله ﷺ نے فرمایا: بیشک جب لوگ کسی ظلم یا برائی یا گناہ کو دیکھیں گے اور اسے روکیں گے نہیں، تو پھر قریب ہے کہ الله اُن سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے (یعنی اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے)۔ (مشکوٰۃ: 5142)
مومن کی یہ شان ہوتی ہے کہ تکلیف میں مبتلا ہو تو بھی الله ﷻ کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے اور مصیبت کے ٹل جانے کے بعد بھی جو نعمتیں ملتی ہیں ان پہ نظر رکھتا ہے یعنی الله ﷻ کا برابر شکر ادا کرتا ہے یہی شکر کا رویہ نعمتوں کے بڑھنے اور دوام کا باعث بن جاتا ہے
سورہ یوسف پڑھ کر لگتا ہے کہ سگّے حسد کر سکتے ہیں، اپنے ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں، غیر نجات دِلا سکتے ہیں، پارسا پر تُہمت لگائی جا سکتی ہے، بِلا جُرم قید ہو سکتی ہے، غیبی مدد سے براءت مِل سکتی ہیں، ظُلم سہہ کر عظیم منصب مِل سکتا ہے، تقویٰ سے عزت کا حصول ہو سکتا ہے، عزیز جُدا ہو سکتا ہے اور ہِجر کاٹا جا سکتا ہے، بِچھڑا مِل سکتا ہے اور ہر خواب پورا ہو سکتا ہے، قُرآن کی اِس سورہ میں کیا کشش ہے، کیسی جاذبیت ہے، کیسا دِلکش اسلوب حسن بیان ہے، کیا فصاحت وبلاغت، کِتنی تسلی، کِتنا سبق ہے، کیسی نصیحتیں ہیں) اور کِس قدر قوی اُمیدیں ہیں۔ اللہ ہم سب کو قرآن پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین Assalamu Alaikum Have a wonderful day!
پاکستان ایسا ہوٹل ہے جہاں کھانا حکمران کھاتے ہیں اور بِل عوام ادا کرتی ہے۔ بجلی کی بلوں میں سب سے بڑی ڈکیتی اس وقت" فیول پرائس ایڈجسٹ" کی مد میں کی جارہی ہے۔ اس کی مثال کو یوں سمجھیں آپ نے گلی کے نکڑ پر ہوٹل میں جاکر چائے کا ایک کپ پیا اور اس کے پچاس روپے دے کر واپس آگئے۔ رات گئی بات گئی۔ اب تین ماہ بعد آپ کے دروازے کی کنڈی کھٹکی، آپ باہر گئے تو وہی ہوٹل والا باہر کھڑا ہے اور وہ آپ سے مطالبہ کرتا ہے کہ آج کل دودھ پتی چینی کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں۔ تو آج سے تین ماہ پہلے آپ جو چائے پچاس روپے کی پی کر گئے تھے آج کے ریٹ کے حساب سے اس کپ کے مزید دس روپے ادا کریں۔ یقیناً آپ اس دوکاندار کے گردے چھیل دیں گے کہ ابے چول انسان، تین مہینے پہلے چائے پی کر پیسے بھی دے دیئے تو اب یہاں چھنکناں لینے آئے ہو؟ مگر جب بات واپڈا کی ہو تو آپ یہ بات نہیں کرسکتے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعے کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو ( اس وقت) اگر تم نے اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو تو تم نے فضول گوئی کی۔ (صحیح مسلم،کتاب جمعہ کےاحکام،۱۹۶۵)
اللَّهمَّ اسقِنَا غَيثًا مُغِيثًا مَرِيئًا مُرِيعًا نَافِعًا غَيرَ ضَارٍّ عَاجلًِا غَيرَ آجِلٍ ترجمہ: اے اللہ! ہمیں ایسی بارش سے سیراب کر، جو مددگار، خوشگوار، سر سبز و شاداب اور نفع بخش ہو، نقصان دینے والی نہ ہو اور جلد برسنے والی ہو، دیر سے برسنے والی نہ ہو۔ آمین
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain