تم سنو یا نہ سنو
ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار
پکاریں گے تمھیں
سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے
ہم تیرے خواب دیکھتے رہیں گے
تُو کہیں اور ڈھونڈتا رہے گا
ہم کہیں اور ہی کِھلے رہیں گے
راہگیروں نے راہ بدلنی ہے
پیڑ ا پنی جگہ کھڑے رہیں گے
سب ہی موسم ہیں دسترس میں تیری
تُو نے چاہا تو ہم ہرے رہیں گے
لوٹنا کب ہے تُو نے پر تجھ کو
عادتًا ہی پُکارتے رہیں گے
تجھ کو پانے میں مسئلہ یہ ہے
تجھ کو کھونے کے وسوسے رہیں گے
تُو اِدھر دیکھ، مجھ سے باتیں کر
یار چشمے تو پُھوٹتے رہیں گے
ایک مدّت ہوئی ہے تجھ سے ملے
تُو تو کہتا تھا رابطے رہیں گے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔
کون ،،،
نقصان کے
تخمینے لگاتا پھرے
ابـــــــ؟؟؟
اُس کو تصویر دکھا دو
،،، وہ سمجھ جائے گا
وہ لوگ
آج خود
اک داستاں کا حصہ ہیں
جنہیں عزیز تھے
قصے
کہانیاں
اور
پھول
تَن تندُور ہتھاں دَا بَالن
تے اَسی ہاوَاں نَال تَپایا
کَپ کَپ بُکیاں پیڑے کِیتے
اُتو عِشق پَلیتَھن لایا
تَن دِی ہانڈی مَن دَا سَالن
اُتو لُون صَبر دَا پایا
غُلام فَریدا میں سَاری تِیری
تَینوں اَجے اعتبار نہ آیا؟
ہاں اُن کی طَلَب میں
جب بھی مِلے
جو کُچھ بھی مِلے
سر آنکھوں پر
دُکھ
دَرد
مُصِیبَت
غَم
صدمہ
ہر چیز گوارا کرتے ہیں
ہم تو کچھ دیر
ہنس بھی لیتے ہیں
دل ہمیشہ_______
اُداس رہتا ہے
بدل سکا نہ جدائی کے غم اُٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دُور جا کر بھی
چاہے روشن سرِ دیوار نہیں ہوتے تھے
ہم ہواؤں کے طرف دار نہیں ہوتے تھے
عشق میں ہاتھ ازل سے ہی رہا تنگ مگر
یوں کُھلے لفظوں میں انکار نہیں ہوتے تھے
اور کیا ہو گا
بھلا سینے میں
دِل کا مصرف؟
بس اِسی واسطے رکھا ہے
کہ ؛ دُکھایا جائے!
طلوعِ ذات سے لے کر
غروبِ ہستی تک
بس اِک سفر ہے
تمنا سے نا اُمیدی تک
بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارہ
میں ہار گیا جنگ مگر دِل نہیں ہارا
اپنے لیے تجویز کی شمشیرِ برہنہ
اور اُس کے لیے شاخ سے اِک پھول اُتارا
اپنے سے
رقابت کا یہ عالَم ہے
کہ توبہ
ہم بھول گئے
خُود کو
وہ آئے ہیں جہاں یاد
نہ ابتدا کی خبر ہے
نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم
کہ ہم ہیں
سو وہ بھی
کیا معلوم
تمام دن کی تھکن سے
میں بجھ رہا تھا
مگر
کسی کی یاد کا
چہرہ نکھر گیا
سرِ شام
سنو
کہ اب ہم گلاب دیں گے
گلاب لیں گے
محبتوں میں
کوئی خسارہ
نہیں چلے گا
🌹🌹
وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی جڑھتے ہوئے سورج کے پجاری
نکلے
سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری ! میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے
ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
بہتے اشکوں سے شعاعوں کی سبیلیں پھوٹیں چبھتے زخموں سے فنِ نقش نگاری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے۔۔۔!!
میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے
اپنا ہونا بھی گوارہ نہیں ہوتا مجھ سے
میں جو یہ معجزۂ عشق لیے پھرتا ہوں
ایک جگنو بھی ستارہ نہیں ہوتا مجھ سے
گھیر رکھا ہے مجھے چاروں طرف سے اس نے
اس تعلق سے کنارہ نہیں ہوتا مجھ سے
میں ہوں دہلیز پہ رکھے ہوئے پتھر کی طرح
اب محبت میں گزارہ نہیں ہوتا مجھ سے
کام جتنے بھی کیے سارے ادھورے ہی رہے
اور یہ عشق بھی سارا نہیں ہوتا مجھ سے
کیا کہا عشق کروں وہ بھی نئے جذبے سے
جی نہیں اب یہ دوبارہ نہیں ہوتا مجھ سے
صرف لے دے کے صفیؔ سانس بچا رکھی ہے
اب کوئی اور خسارہ نہیں ہوتا مجھ سے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain