وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی جڑھتے ہوئے سورج کے پجاری
نکلے
سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری ! میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے
ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
بہتے اشکوں سے شعاعوں کی سبیلیں پھوٹیں چبھتے زخموں سے فنِ نقش نگاری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے۔۔۔!!
میری وحشت کا نظارہ نہیں ہوتا مجھ سے
اپنا ہونا بھی گوارہ نہیں ہوتا مجھ سے
میں جو یہ معجزۂ عشق لیے پھرتا ہوں
ایک جگنو بھی ستارہ نہیں ہوتا مجھ سے
گھیر رکھا ہے مجھے چاروں طرف سے اس نے
اس تعلق سے کنارہ نہیں ہوتا مجھ سے
میں ہوں دہلیز پہ رکھے ہوئے پتھر کی طرح
اب محبت میں گزارہ نہیں ہوتا مجھ سے
کام جتنے بھی کیے سارے ادھورے ہی رہے
اور یہ عشق بھی سارا نہیں ہوتا مجھ سے
کیا کہا عشق کروں وہ بھی نئے جذبے سے
جی نہیں اب یہ دوبارہ نہیں ہوتا مجھ سے
صرف لے دے کے صفیؔ سانس بچا رکھی ہے
اب کوئی اور خسارہ نہیں ہوتا مجھ سے
ڈُوبتی ناؤ تم سے کیا پُوچھے
ناخداؤ! تمہیں خدا پُوچھے
کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پُوچھے
ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پُوچھے
ہے کہاں کنجِ گُل، چمن خورو
کیا بتاؤں، اگر صبا پُوچھے
اٹھ گئی بزم سے یہ رسم بھی کیا
ایک چُپ ہو تو دوسرا پُوچھے
آئنہ صاف رہے ،ربط میں تشکیک نہ ہو
اس لیے روز تجھے کہتے ہیں نزدیک نہ ہو
ہے اگر عشق تو پھر عشق لگے ، رحم نہیں
اتنی مقدار تو دے،، وصل رہے ، بھیک نہ ہو
چھوڑ کے جاؤ کچھ ایسے کہ بھرم رہ جائے
دل سے کچھ ایسے نکالو مری تضحیک نہ ہو
دل ﺑﮭﯽ ﺑﺠﮭﺎ ﮨﻮ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﭘﺮﭼﮭﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺥ ﻟﮩﺮ ﮨﮯ ﻣﻮﺝِ ﺳﭙﺮﺩﮔﯽ
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﻧﮕﮍﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﮨﺮ ﺣﺴﻦِ ﺳﺎﺩﮦ ﻟﻮﺡ ﻧﮧ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﺳﮑﺎ
ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﻣﺰﺍﺝِ ﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﮩﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﺬﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮨﯽ ﻟﮯ ﺑﺠﮭﮯ
ﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﺨﻦ ﺁﺭﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﮐﺎ ﻋﺸﻖ ﺍﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﻓﺮﺍﺯ
ﺩﻝ ﺧﻮﺩ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
اور پھر اور ہیں
اوروں کاگِلہ کیا کرنا
ہم نے پرکھا جو تمہیں
تم بھی نہ ہمارے نکلے
دھیان بھی تیرا ،
تِری موجودگی سے کم نہ تھا
کنجِ خلوت میں بھی ہم ،
جکڑے رہے آداب میں
جو ہو فیصلہ
وہ سنائیے،
اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے
آپ ستم وہاں
وہ ابھی سہی،
وہ یہیں سہی
ہم کو یاں در در پھرایا یار نے
لا مکاں میں گھر بنایا یار نے
آپ اپنے دیکھنے کے واسطے
ہم کو آئینہ بنایا یار نے
اپنے اک ادنیٰ تماشے کے لئے
ہم کو سولی پر چڑھایا یار نے
آپ چھپ کے ہم کو کر کے روبرو
خوب ہی رسوا کرایا یار نے
آپ تو بت بن کے کی جلوہ گری
اور ہمیں کافر بنایا یار نے
ہم نے کاٹی ہیں
تری یاد میں راتیں اکثر
دل سےگزری ہیں
تاروں کی باراتیں اکثر
دھوپ میں سایہ بنے
تنہا کھڑے ہوتے ہیں
بڑے لوگوں کے
خسارے
بھی بڑے ہوتے ہیں
نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو
وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر
یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر
یہ جُلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر
تُم کن لوگوں میں
درد سُنانے نکلے ہو __؟
تُم کہو گے درد ہے ،
وہ کہیں گے خُوب ہے
وہ ایک راز!
جو مدت سے راز تھا
ہی نہیں
اس ایک راز سے
پردہ اٹھا دیا گیا ہے
کبھی نہ اترا
شکستہ گھروں کے آنگن میں
چاند بھی
اونچی حویلیوں میں رہا ! ! 💔
پیچھے ہٹو ۔۔
کچھ نہیں ہوا ۔۔
کہا نا ۔۔
کچھ نہیں ہوا
۔۔ بس دل ہی ٹوٹا ہے
۔۔ ٹوٹنے والی چیز تھی
ٹوٹ گئی ۔۔
اس میں کونسا بڑی بات ہے
بٹتی رہی اورو میں
تیری گفتگو کی چاشنی
تیری آواز جن کا رزق تھی
وہ فاقوں سے مر گۓ۔
💔😢
تمہیں پتہ ہے.
سیاہ بخت کسے کہتے ہیں؟
"وہ جس کی زبان محبت کے دعوؤں سے تر ہو
اور
ہاتھ محبت کی لکیروں سے محروم
ہنستے ہُوئے چہرے سے
جو پہچان لیں دُکھ کو
سب لوگ ہی
ماں جیسے تو
ماہر نہیں ہوتے
❤️ 🥀
ھم آخری گلاب ھیں
دنیا کی شاخ پر
ترسیں گے ھم کو لوگ
یہ اگلی بہار میں
ھم کھو گئے تو
ڈھونڈتے پھرتے رھو گے
تم
لاکھوں میں مِل سکیں گے نہ ھم سے ھزار میں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain