ادھر جان بھر مہینوں سے صدا ممتاز لگتا ہے نومبر کس لیے آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے بہت سہمی ہوئی صبحیں اداسی سے بھری شامیں دوپہریں روئی روئی سی وہ راتیں کھوئی کھوئی سی گرم دبیز ہواؤں کا وہ کم روشن اجالوں کا کبھی گزرے حوالوں کا کبھی مشکل سوالوں کا بچھڑ جانے کی مایوسی ملن کی آس لگتا ہے نومبر اس لیے شاید ہمیشہ خاص لگتا ہے
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
سلا رہا تھا نہ بیدار کر سکا تھا مجھے وہ جیسے خواب میں محسوس کر رہا تھا مجھے یہی تھا چاند اور اس کو گواہ ٹھہرا کر ذرا سا یاد تو کر تو نے کیاکہا تھا مجھے تمام رات میری خواب گاہ روشن تھی کسی نے خواب میں اک پھول دے دیا تھا مجھے وہ دن بھی آئے کہ خوشبو سے میری آنکھ کھلی اور ایک رنگ حقیقت میں چھو رہا تھا مجھے میں اپنی خاک پہ کیسے نہ لوٹ کر آتی بہت قریب سے کوئی پکارتا تھا مجھے