کبھی دلبر کبھی دشمن
کبھی دلدار ہو جانا
کہاں سے تم نے سیکھا ہے
بڑا بیزار ہو جانا...
کبھی مل کر رقیبوں سے
ہمارے حال پہ ہنسنا
کبھی میری مُحَبت میں
گُل و گُلزار ہو جانا..
میں جو ہوں وہ ہونے کی اداکاری بھی آپ
! نہیں کر سکتے
آہٹ
یہ جو تمہارے لہجے سے
کسی اور کی خوشبو آرہی ہے
یہ آہٹ ہے جدائی کی
اقراء عافیہ
کوئی پوچھ لے تو کہنا ،
میرا حال اب کہ یٌوں بے
نہ کسی کی آرزو ہے ،
نہ کسی کا اب جنوں ہے
میں کنار ِ دل پہ بیٹھا ،
یہی خود سے پوچھتا ہوں
کہاں رہ گئے تلاطم؟
بڑی دیر سے سکوں ہے
اگر تُم مجھ سے ایک قدم پیچھے ہٹو گے...!!
تو واپسی پر تُمہیں مُجھ تک آنے کے لیے 11 قدم کا فاصلہ طے کرنا ہو گا...!!
ایک قدم وہ جو تُم اُکتا کر مُجھ سے دُور ہُوئے...!!
دس قدم وہ جو میں نے تُمہارے لہجے میں بیزاریت جان کر پِیچھے ہٹائے...!!
مُحبت کو نرم گوئی اور توجہ کی عادت ہے...!!
یہ تلخ اور بیزار لہجوں سے دُور بھاگتی ہے...
چَـل کہیں اور بچِھـا، عِشـق مُصلّیٰ تاباں
اُس کے پہلُو میں، اقامت نہیں ملنے والی
کوئـی دُراہ، کوئـی کوڑَا، کوئـی چَــابُک لَاوٗ
ھمکو لفظوں سے، نصیحت نہیں مِلنے والی
وقت سے پہلے
ذات میں ٹھہراؤ سا آجاۓ
تو
زندگی کو خط لکھ دینا چاہیے
کہ
وہ عمر کا
ایک حصہ
!!....بغیر کسی معذرت کے کھا گئی ہے
ماضی کی ہر یاد خواہ وہ کتنی ہی تلخ ہو،حال کی شرینیوں سے زیادہ پرکیف ہوتی ہے اور مستقبل کی ہر تمنا خواہ کتنی ہی عسیر الحصول کیوں نہ ہو حالات حاضرہ سے قیمتی معلوم ہوتی ہے
علامہ نیاز فتح پوری (من و یزداں)
فیض احمد فیض کی ساری شاعری سچی ہے، ایک مصرعہ جھوٹ لکھ گئے ہیں،
"بول کہ لب آزاد ہیں تیرے"۔
ہاۓ وہ اسم محبت کہ ہم ایمان لے آئے
مانگ لی جان تو بھاگے ہوئے ہم جان لے آئے
تیری مرضی ہے میری جان جہاں مرضی لے جا
ہونٹ کٹ جائیں جو پوچھوں کہ، کہاں لے آئے
دنیا میں ایک ایسی محبوبہ بھی گزری ھے جس نے اپنی محبت کے لیے ساری حدیں عبور کر دی
نرس (کرسچن گلبرٹ) وہ ایک مرد سے بے حد محبت کرتی تھی ، جو کہ اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتی ھے
صرف اس وجہ سے
نرس کرسچن گلبرٹ جو کہ "موت کا فرشتہ" کے نام سے جانی جاتی تھی ، وہ اپنے مریضوں کو بے ہوشی کا انجکشن لگا کر
مار دیتی تھی
کیونکہ اس کا عاشق
مردہ خانے میں کام کرتا تھا ، یہ اس کے لیے اپنے عاشق کو بلانے کا بہانہ ہوتا تھا اور وہ ڈیڈ باڈی لینے آیا کرتا تھا ،
اور کرسچن اس کا دیدار کر لیتی تھی😑
یہ ہوتیں ہے سچیاں محبتاں،😌
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
!بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
(ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں)
سید جون ایلیاء
" اور پھر اُس شخص کے لِیے دُنیا بھر کی تلافی بھی کافی نہیں جو شخص اپنے محبوب سے مایوس ہُوا ہو! ۔ "
اُسے اذیت سے نِکلنے کی کوئی راہ نہ مِلے گی،
یُونہی کوئی روگ اُسکے دِل کو بھی اگر لَگ جائے ...
خُدا کرے پہلے مَیری یاد اُسکے دِل میں بَس جائے،
پِھر اُس پہ سزا یہ کہ اُسے مَیری بھی عُمر لگ جائے !- 💔
عمر بڑی ہوتی ہے رونے والوں کی
گیلی لکڑی جلتے-جلتے جلتی ہے
راجیش ریڈی
کئی بار ہاتھ مجھ سے وہ ملا چکے ہیں لیکن
جونصیر دل ملاتے تو کچھ اور بات ہوتی
نصیر الدین نصیر
رائگانی سے کہیں بڑھ کے ہے رنجِ بے بسی
ڈھل رہے ہیں ہم ہمـارے سامنے رکھے ہوئے
ظہیر مشتاق
اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
احسان دانش
کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں
رئیس امروہوی
ذات اپنی نہ بنی باعثِ تسکین کبھی
ہم سے ہر شخص کو! ہر شخص کو تکلیف ملی
لاریؔن جعفری
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain