کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی कब ठहरेगा दर्द ऐ दिल कब रात बसर होगी सुनते थे वो आएँगे सुनते थे सहर होगी - Faiz Ahmad Faiz
اَشک دَر اَشک دُہائی کا ثمر دیتے ہیں اُن کے آثار جدائی کی خبر دیتے ہیں غالـباً یہ مرے چپ رہنے کا خمـیازہ ہے تجھ کو آواز مرے شام و سَحَر دیتے ہیں جان دے جانے کا جو پختہ اِرادہ کر لوں جان کہہ کر مجھے بے جان سا کر دیتے ہیں لفـظ مردہ ہیں، لغت کوئی اُٹھا کر دیکھو صرف جذبات ہی لفظوں کو اَثر دیتے ہیں ایک گمنام اُداسی نے مجھے گھـیر لیا آج وُہ ہنستے ہُوئے اِذنِ سفر دیتے ہیں چند اِحباب، مسیحائی کی قسمیں کھا کر زَخم کو کھود کے، بارُود سا بھر دیتے ہیں قیس دِل کا نہ تعلق بنے جن لوگوں سے ساتھ سو شرطوں پہ دیتے ہیں، اَگر دیتے ہیں
اب یادوں کے کانٹے اس دل میں چُبھتے ہیں نہ درد ٹھہرتا ہے نہ آنسو رُکتے ہیں ، تمہیں ڈھونڈ رہا ہے پیار ہم کیسے کریں اقرار کہ ہاں ، تم چلے گئے چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کونسا دیس جہاں تم چلے گئے ! اس دل پہ لگا کے ٹھیس جانے وہ کونسا دیس جہاں تم چلے گئے !
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain