خود ہی بتاؤ کہ اتنا رائیگاں ہو کر
ہم کیا اب بھی صدائیں دیں گے تمہیں؟
ہاں چلو فرض کریں تم جو لوٹ آؤ تو
کس طرح سے وہی وفائیں دیں گے تمہیں؟
سید علی مضؔطر جعفری
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
ناصر کاظمی
ورنہ کب ہم کو یہ سَفّاک بری لگتی ہے
منہ کو آتی ہے تو پھر خاک بری لگتی ہے
ایک دن قوّتِ پرواز پہ حرف آیا تھا
آج تک وسعتِ افلاک بری لگتی ہے
ہم نہ کہتے تھے محبت کو پہننے والو
داغ لگ جائے تو پوشاک بری لگتی ہے
اسامہ خالد
آسانیاں بانٹیں، آپ نہیں جانتے اگلا اپنے اندر کِتنا غُبار لیے پِھر رہا ہے، آپ نہیں جانتے اگلا اپنے اندر کتنی جنگیں لڑ رہا ہے، نرمی سے پیش آئیں، مسکراہٹ بکھیرنے والے دعائیں سمیٹنے والے بنیں۔
آسانیاں تقسیم کرنے والے بنیں، نرمی کا معاملہ رکھیں۔
لوگوں کو دکھ نہ دیں، لوگوں کو سُن لیا کریں ❤
محکمہ موسمیات کے مطابق جنوری میں دھند اور فروری میں دھاندلی ہوگی 🥴🤫
" تمنا "
میں تیری چھاؤں میں، پروان چڑھوں
اپنی آنکھوں پہ، تیرے ہاتھ کا سایہ کر کے
تیرے ہمراہ میں، سورج کی تمازت دیکھوں
اُس سے آگے نہیں، سوچا دل نے!
پھر بھی احوال یہ ہے!
اِک بھروسا ہے کہ دل سبز کیے رَکھتا ہے
ایک دَھڑکا ہے کہ خون سَرد کیے رَکھتا ہے!
پروین شاکر
خوبصورت غزل کا ایک شعر
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
قتیل شفائی ۔
ہمارے جیسے وہاں کِس شُمار میں ہوں گے
کہ جِس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
آغاز ِ عشق میں ہی ایسی اُداسیاں تابشؔ
ہر ایک شام یہ لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔ شام آخری ہے
عباس تابش

کچھ رستے ۔۔کہیں نہیں جاتے
ہم صدیوں چل کے دیکھ لیے!

محسن نقوی
شہر کی دُھوپ سے پُوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہُوئے لوگ وہ زُلفوں کی گَھٹاؤں والے
اَب کے بَستی نظر آتی نہیں اُجڑی گَلیاں
آؤ ڈُھونڈیں کہیں درویش، دُعاؤں والے
سَنگ زاروں میں مِرے ساتھ چَلے آئے تھے
کِتنے سادہ تھے وہ بِلّور سے پاؤں والے
ہم نے ذرّوں سے تراشے تِری خاطر سُورج
اب زمیں پر بھی اُتر، زرد خلاؤں والے
کیا چراغاں تھا مُحبّت کا کہ بُجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پُرشور ہواؤں والے
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بَنی ہے محسنؔ
خامشی کے وہی تیور ہیں صَداؤں والے
Good bye damadam 🙃
اَیسا کوئی بِھی شَخص، دل کا مَکیں نَہ ہو
جَو ہَر جگہ پہ ہوتے ہُوئے بھی کَہیں نَہ ہو.
حَسرت سے سَوچتے ہیں تُجھے دیکھ کر یہ ہم
بَندہ وَفـا پَرَست ہو, چـاھے حَسِیـں نَہ ہو.
ابھی تو زخم پرانے نہیں بھرے اور دیکھ
نکل پڑا دلِ مزدور پھر کمانے عشق
نیا ہے سال، نئے لوگ ، اور شہر نیا
مگر یہ ہجر ترا ہجر, اے پرانے عشق
آزاد حسین آزاد
سب سے مہنگی ہے
چلتی رہتی ہے رکتی نہیں
دوستی
تیری میری ایسی دوستی
💔
خیال گھومتا تھا یوں خیالِ یار کے گرد
زمین گھومتی ہے جس طرح مدار کے گرد
کومل جوئیہ
کردو کردو کرم
مرشد محترم
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain