اب یادوں کے کانٹے
اس دل میں چُبھتے ہیں
نہ درد ٹھہرتا ہے
نہ آنسو رُکتے ہیں ،
تمہیں ڈھونڈ رہا ہے پیار
ہم کیسے کریں اقرار
کہ ہاں ، تم چلے گئے
چٹھی نہ کوئی سندیس
جانے وہ کونسا دیس
جہاں تم چلے گئے !
اس دل پہ لگا کے ٹھیس
جانے وہ کونسا دیس
جہاں تم چلے گئے !
اب جو ٹوٹا ہے تو بیٹھا ہے چین سے زرا
ورنہ اس دِل نے دِکھانے تھے تماشے کیا کیا_
جاگا ھوا ھے دِل میں ایک درد بے کراں
لوری سُنا رھی ھوں مگر سو نہیں رہا ،
سوچو ذرا یہ کِتنی اذیت کی بات ھے!؟
ھم مر رھے ھیں اور کوئی رو نہیں رھا!
دوریوں کا گمان رہتا ہے
کوئی کتنا قریب آ جائے
فاصلہ درمیان رہتا ہے
نصیر احمد ناصر، "زرد پتوں کی شال" سے، 1980 تا 1990ء
کتنا غافل رہا ہے تُو مجھ سے
اس قدر رائیگاں نہیں تھی میں ۔۔۔۔۔!!
پھر سے اک بار اجڑ جاتے ہیں
چل تیرے عشق میں پڑھ جاتے ہیں
میں نے کب کہا مجھے گلاب دیجئیے
یا پھر محبت سے نواز دیجئیے
آج بہت اُداس ھے دل میرا
غیر بن کے ھی سہی پر آواز دیجئیے ۔۔
بتاؤ ذرا کونسی بہار لے کے آیا ہے جنوری!!!
تم تو کہتے تھے کہ بہت ویران تھا دسمبر!!
اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ
آپ کِتنے قِیمتی،
کِتنے قابِل،
اور کِتنے اہم ہیں،
اگر آپ!
ناقَـــــــــــــــــــــدرُوں کے ہاتھ لگے ہُوئے ہیں تَو
*آپ بے کار ہیں•••••••••
نیند آتی ہے مجھے رات بڑی مشکل سے
پھر کوئی خواب مری آنکھ میں آ لگتا ہے
کب تلک لوٹ کے آؤ گے بچھڑنے والو
خالی رستے پہ کھڑا شخص برا لگتا ہے
محمد طارق عزیز
خود ہی بتاؤ کہ اتنا رائیگاں ہو کر
ہم کیا اب بھی صدائیں دیں گے تمہیں؟
ہاں چلو فرض کریں تم جو لوٹ آؤ تو
کس طرح سے وہی وفائیں دیں گے تمہیں؟
سید علی مضؔطر جعفری
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
ناصر کاظمی
ورنہ کب ہم کو یہ سَفّاک بری لگتی ہے
منہ کو آتی ہے تو پھر خاک بری لگتی ہے
ایک دن قوّتِ پرواز پہ حرف آیا تھا
آج تک وسعتِ افلاک بری لگتی ہے
ہم نہ کہتے تھے محبت کو پہننے والو
داغ لگ جائے تو پوشاک بری لگتی ہے
اسامہ خالد
آسانیاں بانٹیں، آپ نہیں جانتے اگلا اپنے اندر کِتنا غُبار لیے پِھر رہا ہے، آپ نہیں جانتے اگلا اپنے اندر کتنی جنگیں لڑ رہا ہے، نرمی سے پیش آئیں، مسکراہٹ بکھیرنے والے دعائیں سمیٹنے والے بنیں۔
آسانیاں تقسیم کرنے والے بنیں، نرمی کا معاملہ رکھیں۔
لوگوں کو دکھ نہ دیں، لوگوں کو سُن لیا کریں ❤
محکمہ موسمیات کے مطابق جنوری میں دھند اور فروری میں دھاندلی ہوگی 🥴🤫
" تمنا "
میں تیری چھاؤں میں، پروان چڑھوں
اپنی آنکھوں پہ، تیرے ہاتھ کا سایہ کر کے
تیرے ہمراہ میں، سورج کی تمازت دیکھوں
اُس سے آگے نہیں، سوچا دل نے!
پھر بھی احوال یہ ہے!
اِک بھروسا ہے کہ دل سبز کیے رَکھتا ہے
ایک دَھڑکا ہے کہ خون سَرد کیے رَکھتا ہے!
پروین شاکر
خوبصورت غزل کا ایک شعر
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
قتیل شفائی ۔
ہمارے جیسے وہاں کِس شُمار میں ہوں گے
کہ جِس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
آغاز ِ عشق میں ہی ایسی اُداسیاں تابشؔ
ہر ایک شام یہ لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔ شام آخری ہے
عباس تابش

کچھ رستے ۔۔کہیں نہیں جاتے
ہم صدیوں چل کے دیکھ لیے!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain