محسن نقوی شہر کی دُھوپ سے پُوچھیں کبھی گاؤں والے کیا ہُوئے لوگ وہ زُلفوں کی گَھٹاؤں والے اَب کے بَستی نظر آتی نہیں اُجڑی گَلیاں آؤ ڈُھونڈیں کہیں درویش، دُعاؤں والے سَنگ زاروں میں مِرے ساتھ چَلے آئے تھے کِتنے سادہ تھے وہ بِلّور سے پاؤں والے ہم نے ذرّوں سے تراشے تِری خاطر سُورج اب زمیں پر بھی اُتر، زرد خلاؤں والے کیا چراغاں تھا مُحبّت کا کہ بُجھتا ہی نہ تھا کیسے موسم تھے وہ پُرشور ہواؤں والے ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بَنی ہے محسنؔ خامشی کے وہی تیور ہیں صَداؤں والے
اَیسا کوئی بِھی شَخص، دل کا مَکیں نَہ ہو جَو ہَر جگہ پہ ہوتے ہُوئے بھی کَہیں نَہ ہو. حَسرت سے سَوچتے ہیں تُجھے دیکھ کر یہ ہم بَندہ وَفـا پَرَست ہو, چـاھے حَسِیـں نَہ ہو.
بہتر ہے اسے گھر کے کسی طاق میں رکھ دو ٹوٹا ہوا دل لے کے کہاں جانے لگے ہو آشوب چشم سے بھی پھڑکتی ہے کبھی آنکھ تم یہ نہ سمجھنا مجھے یاد آنے لگے ہو قتیل شفائی✍️
مبہم راہ روحِ من اے سکونِ قلب مرے ماحصَل تیرا اعتبار تو ہے واسطہ موجبِ وِصال نہ ہو رابطہ باعثِ قرار تو ہے وقت کے گرد بار میں کھو کر ہوں فلک پرکہ بر زمیں ہوں میں یہ بھی مبہم ہے تیری دنیا میں جانے میں ہوں بھی یا نہیں ہوں میں حنا بلوچ