آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم بھی کیا لوگ ہیں سب جھولیاں بھر لاتے ہیں
بے یقینی کا تو ماسہ بھی بہت ہوتا ہے
شکریہ کہہ کے تسلی ہمیں مل جاتی ہے
ورنہ احسان ذرا سا بھی ، بہت ہوتا ہے
یہ جو ہم لوگ دکھائی نہیں دیتے ہیں تمہیں ۔۔ !
کم نمائی کا یہ خاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم فقیروں کی مناجات کا افسوس نہ کر
ہاتھ خالی ہوں تو کاسہ بھی بہت ہوتا ہے
آپ ہمدردی کے احسان اٹھا لاۓ ہیں
رونے والوں کو دلاسہ بھی بہت ہوتا ہے 🖤
ضمیر قیس
سب اپنے اپنے فسانے سُناتے جاتے ھیں
نِگاھِ یار مگر ھَم نَوَا کسی کی نہیں
(احمد فرازؔ)
محبت ہو بھی جائے
تو
میرا یہ بخت
ایسا ہے
جہاں پر ہاتھ میں
رکھ دوں
وہیں پر درد بڑھ
جائے
محبت سرد
پڑ جائے

اُسے بھی اب کوئی پرواہ نہیں ہماری ظفر
بغیر اس کے ہمارا بھی کام چلتا ہے
تمام عمر میں ہر صبح کی آذان کے بعد
اِک اِمتحان سے گزرا، اِک اِمتحان کے بعد
خْدا کرے کہ کہیں اور گردشِ تقدیر
کِسی کا گھر نہ اْجاڑے مِرے مکان کے بعد
دَھرا ہی کیا ہے مِرے پاس نَذر کرنے کو
تِرے حضور مِری جان میری جان کے بعد
یہ راز اْس پہ کھلے گا جو خود کو پہچانے
کہ اِک یقین کی منزل بھی ہے گمان کے بعد
یہ جرم کم ہے کہ سچائی کا بھرم رکھا
سزا تو ہونی تھی مجھ کو مرے بیان کے بعد
مِرے خدا اِسے اپنی امان میں رکھنا
جو بچ گیا ہے مِرے کھیت میں لگان کے بعد
ساقی امرہوی
چاہتے دونوں بہت اک دوسرے کو ہیں مگر
یہ حقیقت مانتا تُو بھی نہیں، میں بھی نہیں
لغزشوں سے ماورا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
تُو مجھے اور میں تُجھے الزام دیتا ہوں مگر
اپنے اندر جھانکتا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیا دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا بُرا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
چاہتے دونوں بہت اک دوسرے کو ہیں مگر
یہ حقیقت مانتا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتوں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو
درحقیقت پارسا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
رات بھی ویراں فصیل شہر بھی ٹوٹی ہوئی
اور ستم یہ جاگتا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان عارفؔ تُو بھی ضدی تھا انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خود سر تھے جھکا تُو بھی نہیں میں بھی نہیں......
افتخار عارف
ہم بھی دلِ خراب سے بیزار ہیں مگر
کیا کیجیے کہ بات نہیں اختیار کی__!
تمام عمر میں ہر صبح کی آذان کے بعد
اِک اِمتحان سے گزرا، اِک اِمتحان کے بعد
خْدا کرے کہ کہیں اور گردشِ تقدیر
کِسی کا گھر نہ اْجاڑے مِرے مکان کے بعد
دَھرا ہی کیا ہے مِرے پاس نَذر کرنے کو
تِرے حضور مِری جان میری جان کے بعد
یہ راز اْس پہ کھلے گا جو خود کو پہچانے
کہ اِک یقین کی منزل بھی ہے گمان کے بعد
یہ جرم کم ہے کہ سچائی کا بھرم رکھا
سزا تو ہونی تھی مجھ کو مرے بیان کے بعد
مِرے خدا اِسے اپنی امان میں رکھنا
جو بچ گیا ہے مِرے کھیت میں لگان کے بعد
ساقی امرہوی
اے دل کے ولولوــــــ شب وعدہ فریب ہے
تا زندگی ____سویرا سویرا کرو گے تم 🖤
قتیل شفائی
ﭼﻠﻮ ﺗﻢ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ
ﭼﺎﻧﺪ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﭩﯽ ﻟﻮ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﺖ ﺑﻨﺎﺅ
ﺍﮎ ﺗﻢ ﺟﯿﺴﺎ
ﺍﮎ ﻣﺠﮫ ﺟﯿﺴﺎ
ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﺩﻭ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﭩﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﻧﺪﮪ ﻟﻮ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﺖ ﺑﻨﺎﺅ
ﺍﮎ ﺗﻢ ﺟﯿﺴﺎ
ﺍﮎ ﻣﺠﮫ ﺟﯿﺴﺎ
ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﭽﮫ ﺗﻢ ﺭﮦ ﺟﺎﺅ.....
پِرِیت نَہ جانے جات کُجات
نِیند نَہ جانے ٹُوٹی کھاٹ،
بُھوک نَہ جانے باسی بھات
پِیاس نَہ جانے دھوبی گھاٹ
نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے,
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا۔

"Sensitive souls reflect truth so clearly,
it can unsettle those hiding from their own."
— Dede Hawkins
یاد خوب آتا ہے
مجھ سے وہ نہیں ملتا
رسم تو نبھاتا ہے
ڈاکٹر سعدیہ بتول حیدر
ﷲ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
✍️ : جگن ناتھ آزادؔ
(یوم وفات 24 جولائی 2004)
غم ہمیشہ چیخ کر نہیں آتا،
کبھی وہ خاموشی اوڑھ کر بھی بیٹھ جاتا ہے۔
کبھی کبھی دل بس تھک جاتا ہے —
کسی کے سمجھنے کی خواہش میں،
کسی کے لوٹ آنے کی امید میں،
یا خود سے لڑی ہوئی ایک مسلسل جنگ میں۔
اور تب…
نہ رو لینا کافی ہوتا ہے،
نہ چھپ جانا آسان۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain