رائگانی سے کہیں بڑھ کے ہے زنجِ بے بسی
ڈھل رہے ہیں ہم ہمارے سامنے رکھے ہوئے
ظہیر مشتاق رانا
ﺟﯿﺴﺎ ﻣﻮﮈ ﮨﻮ ﻭﯾﺴﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﻮﺳﻢ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺩﺭﺩ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﻭ ! ﺍﺗﻨﺎ ﺿﺒﻂ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺭﻭ ﻟﯿﻨﺎ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻋﺰﯾﺰ ﺍﻋﺠﺎﺯؔ
اک روز اس نے بھیجا مجھے دل بنا کے اور
اس دن کے بعد میرا کہیں دل نہیں لگا ♡
مہوش مشعل
جو ابر گھیر کے لایا تو میں اکیلا تھا
تمہارا ہجر منایا تو میں اکیلا تھا
ابھی تو دوست دِیوں کی مثال تھے خالد
ہوا نے شور مچایا تو میں اکیلا تھا
خالد ندیم شانی
وہ باتیں تیری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بس اک داغ ِ سجدہ میری کائنات
جبینیں تیری ، آستانے ترے
بس اک زخمِ نظارہ حصہ میرا
بہاریں تری آشیانے ترے
فقیروں کا جھمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے ترے
ضمیر صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے تیرے
عبدالحمید عدم
اب کون کہے تم سے
میں یاد اگر آؤں
کچھ دیپ جلا لینا
اب کون کہے تم سے
سوکھے ہوئے پیڑوں کو
ہر بات سنا لینا
اب کون کہے تم سے
اجڑے ہوئے لوگوں سے
خاموش دعا لینا
اب کون کہے تم سے
بے کار اذیت میں
مت خود کو گنوا لینا
اب کون کہے تم سے
کوئی رو کے منائے تو
سینے سے لگا لینا
اب کون کہے تم سے
بے عیب نہیں کوئی
تم عیب چھپا لینا
زین شکیل۔
کسی کی خاطر قرار کھونا
کوئی سُنے گا تو کیا کہے گا
تمھارا راتوں کو اُٹھ کر رونا
کوئی سُنے گا تو کیا کہے گا
زمانہ عہدِ شباب کا ہے
نئے خواب و خیال کا ہے
شبِ بیداری اور دن کا سونا
کوئی سُنے گا تو کیا کہے گا
بھنور میں تُم ہم کو چھوڑ آتے
یونہی محبت کا راز رہتا
لا کے ساحل پہ یوں ڈبونا
کوئی سُنے گا تو کیا کہے گا
کہا یہ میں نے
تم زندگی ہو میری
وه ہنس کے بولے چُپ رہو نہ
کوئی سُنے گا تو کیا کہے گا
تو تسلی سے چلا تیشہ رعایت مت کر
یوں سمجھ، دل نہیں دیوار مرے سینے میں ہے
کیا کروں اسکا مجھے اتنا بتاتے جائیں
آپ کی چیز جو سرکار مرے سینے میں ہے
لوگ کہتے ہیں کہ آسیب ہے دیواروں پر
میں یہ کہتا ہوں نہیں یار مرے سینے میں ہے ♡
نعمان شفیق
آو ﭘﮭﺮ ﺳﮯ
ﺩﻫﺮﺍﺋﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﭼﺎﮨﻮﮞ
ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﻭﺟﮧ
ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﻧﺎ ...!!!
کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی
جلتی رہی حیات بڑی خاموشی کے ساتھ
ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﺗﻮ ﺩﻝ ﮔﺮﻓﺘﮧ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﺷﺠﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻤﺮ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺍﺩﺭﯾﺲ ﺍٓﺯﺍﺩ
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
بہادر شاہ ظفر
نامہ بر حال میرا __ اُن سے زبانی کہنا ۔۔۔
خط نہ دینا کہ وہ اوروں کو دِکھا دیتے ہیں
کیا تم نے کبھی خود کو خط لکھا؟
ایک معذرت بھرا خط
اُن خواہشات کے لیئے
جو مسخ ہو گئیں
اُن خوابوں کے نام
جو ادھورے رہ گئے
کیا تم نے کبھی خود سے معذرت کی
کہ ایک عرصے سے تم
کبھی کُھل کر بے وجہ مسکرا نہ سکے
ایک عرصے سے تم
کوئی بھی محبت بھرا گیت گا نہ سکے
سنو یہ بھی ایک المیہ ہے
اس پر معذرت بنتی ہے
سو کبھی كبھار
خود سے معذرت کر لیا کرو۔
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
قلق میرٹھی
تھوڑی دیر ذرا سا اور وہیں رُکتیں تو
سُورج جھانک کے دیکھ رہا تھا کھڑکی سے
ایک کرن جُھمکے پر آ کر بیٹھی تھی
رُخسار کو چوُمنے والی تھی کہ
تم مُنہ موڑ کے چل دِیں اور بیچاری کرن
فرش پہ گر کے چوُر ہوئی
تھوڑی دیر، ذرا سا اور وہیں رُکتی تو ؟
گلزار
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
اسے نہیں معلوم کرنی چاہیے
پھولوں کے ایک دستے کی قیمت
یا دن ، تاریخ اور وقت..
__افضال احمد سید
بے سبب یوں ہی سرِ شام نکل آتے ہیں
ہم بُلائیں تو انہیں کام نکل آتے ہیں
ھمارا عشق ظفر رہ گیا ، دَھرے کا دَھرا
کرایہ دار اچانک ، مکان چھوڑ گیا
صابر ظفر
آؤ زندگی جیتے ہیں !
وقت اور حالات اجازت نہیں دیتے ورنہ!
ہم تم سے یہ کہتے
کہ چلو آؤ!
کسی پہاڑ کے دامن میں زرد پتوں سے
ڈھکے کسی بینچ پر
بیٹھ کر چائے پیتے ہیں !
آؤ زندگی جیتے ہیں ❤️
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain