ذرا سی بات پہ نم دیدہ ہوا کرتے تھے ہم بھی کیا سادہ و پیچیدہ ہوا کرتے تھے اب ہمیں دیکھ کے لگتا تو نہیں ہے لیکن ۔۔۔! ہم کبھی اس کے پسندیدہ ہوا کرتے تھے۔۔!!!
شام ہوتے ہی کسی بھولے ہوئے غم کی مہک صحن میں یوں اتر آئی ہے کہ سبحان اللہ پا بہ گل ہوں مگر اڑتا ہوں میں خوشبو بن کر قید میں ایسی رہائی ہے کہ سبحان اللہ رحمان فارس
جب یاروں سے عہد نبھانے پڑتے ہیں دل میں قبرستان بنانے پڑتے ہیں یوں تو آمنے سامنے بیٹھے ہیں لیکن تیرے میرے بیچ زمانے پڑتے ہیں مجھ جیسوں میں آکر زرد ہی رہتے ہیں تجھ ایسوں میں رنگ سہانے پڑتے ہیں تنہائ جب حد سے زیادہ ہو جائے دیواروں کو درد سنانے پڑتے ہیں گھر والوں میں بیٹھ کے ہنسنا پڑتا ہے رونے کے اسباب چھپانے پڑتے ہیں تم جیسوں کو سکھ ملتے ہیں تھالی میں ہم جیسوں کو یار کمانے پڑتے ہیں ہم جیسے پھل دار مقدس پیڑوں کو قسمت کے سب پتھر کھانے پڑتے ہیں مقدس ملک
بس بگڑ جائے مری سانسوں کی ترتیب ذرا کیا تو اتنا بھی مرے پاس نہیں ہو سکتا ؟ کیا اذیت ہے ترے گال پہ پڑتا ڈمپل تجھ کو اس درد کا احساس نہیں ہو سکتا کیسے مانوں کہ تجھے یار طلب ہے میری ایک دریا کو لگے پیاس ؟ نہیں ہو سکتا جاویدجدون
جہانِ رنگ ترا انتظار کرتے ہوئے میں تھک گیا ہوں ستارے شمار کرتے ہوئے نہیں ہے دوسرا آنسو بھی میری پلکوں پر یہاں تک آ گیا میں اختصار کرتے ہوئے♡ میں سوچتا ہوں مجھے سوچنا تو چاہیے تھا بے اعتبار پہ پھر اعتبار کرتے ہوئے منیر انور
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain