اِتنا بکھرا ہوں اِکٹھّا نہیں ہونے والا، اب تُجھے چُھو کے بھی اچھا نہیں ہونے والا، زندگی کھول دے زنجیر مِرے پاؤں کی، مجھ سے اب اور تماشا نہیں ہونے والا، اتنا روئی ہیں ترے ہِجر میں زندہ آنکھیں، اب کسی لاش پہ گریہ نہیں ہونے والا، مر گئی مجھ میں کہیں شعر مزاجی میری، اب تُجھے دیکھ کے مصرع نہیں ہونے والا، دُکھ یہی ہے کہ مِری سانس پہ قابض ہوا شخص، کچھ بھی ہو جائے وہ میرا نہیں ہونے والا.
ایک پرانے احساس کو دل میں جگانے سے تکلیف دہ کچھ نہیں جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ھے روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ھے احمد مشتاق
میں اس خلوص کے صدقے! اے سامعین مگر جو حال بول نہ پائیں کسے سناتے ہیں؟ کسے بتاتے ہیں آنکھوں کی سرخیوں کا سبب؟ بہت اداسی میں کس کو گلے لگاتے ہیں! تعبیر علی
چھوڑ کر زندہ مُجھے آپ کہاں جائیں گے پہلے میں جان سے جا لوں تو چلے جائیے گا آپ کے جاتے ھی بیدمؔ کی سُنے گا پھر کون اپنی بیتی میں سُنا لوں تو چلے جائیے گا (بیدمؔ شاہ وارثی)
اب کون کہے تم سے میں یاد اگر آؤں کچھ دیپ جلا لینا اب کون کہے تم سے سوکھے ہوئے پیڑوں کو ہر بات سنا لینا اب کون کہے تم سے اجڑے ہوئے لوگوں سے خاموش دعا لینا اب کون کہے تم سے بے کار اذیت میں مت خود کو گنوا لینا اب کون کہے تم سے کوئی رو کے منائے تو سینے سے لگا لینا اب کون کہے تم سے بے عیب نہیں کوئی تم عیب چھپا لینا زین شکیل۔
کاش کر سکتے ھم اظہارِ اذیت لیکن حال افسانہ نہیں ھے کہ سنایا جائے۔۔۔ کیا ھوا۔۔۔؟ کیسے ھوا۔۔۔؟ آج نہ پوچھو ھم سے۔۔۔ آج سینے پہ دھری ھے کسی افسوس کی ِسل کل کا وعدہ ھے کوئی بات کریں گے۔۔۔ مگر آج آج ھم رو نہ پڑیں۔۔۔؟ !!! آج بہت زرد ھے دل