ھمارے معاشرے میں اسی، نوے فیصد شادیاں قائم رہنے کی وجہ یا "بچے" یا "سماج" ھیں۔۔!
"محبت" نہیں😰

lk lk ki
روایت
na bdli dd walo ny 😏😣
koi dhang ka comment krna na aya 😐
گھنٹوں سے یونہی بس
فون کی اسکرین دیکھے جا رھی ھوں
جبکہ جانتی ھوں ٹیکنالوجی کوئی معجزہ نہیں کرتی،
خواہش کے اظہار سے ڈرنا سیکھ لیا ھے
دل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا ھے
نوشی گیلانی
مٹی نہ پھرول فریدا
یار گواچے نئیں لبدے.
ہم کہاں بستے ہیں کسی کے دل میں
ہم تو فقط وقت گزاری کا سامان ٹھہرے
کاش انسان کو " آس " کا کینسر نہ ھوتا!
امرتا پریتم
نہ شب و روز ھی بدلے ہیں نہ حال اچھا ھے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ھے
٭ احمد فراز
رودادِ ستم کہہ کر میں نے جو کہا سمجھے
منہ پھیر کے فرمایا ! جھوٹے کو خدا سمجھے
وہ میری دعاؤں کو سمجھے کہ شکایت ھے
کیوں میں نے شکایت کی؟ یہ ان کی بلا سمجھے
جو مجھ پہ مصیبت ھے سب دل کی بدولت ھے
اس دل نے مجھے کھویا، اس دل کو خدا سمجھے
استاد امام بخش ناسخ لکھنوی
حضور ! عشق نے عزت خراب کی ، سو کی
ہمارا پھول نما چہرہ بھی ملُول کیا
افکار علوی
اجنبی راستے پر قطبی ستارے جیسے
اچھے لگتے ہیں مجھے لوگ تمہارے جیسے
میں نے پیڑوں کی طرح سب کو جگہ دی لیکن
مجھ کو لہجے ملے احباب سے آرے جیسے
ہم نے اس شخص کو یوں اپنی قرابت میں رکھا
تجربہ کار کو رکھتے ہیں ادارے جیسے
عاجز کمال رانا
بچھڑ گئے ھو تو لوح دل سے مجھے
کچھ اس طرح سے مٹانا، کمال کر دینا
اسلم کولسری
بیٹھے بیٹھے برس پڑی آنکھیں
کر گئی پھر کسی کی آس, اداس
ناصر کاظمی
راکھ ھوتے ہیں دھڑکتے ھوئے دل لمحوں میں
آگ لہجوں کی لگائی بھی بری لگتی ھے
پھر کتابوں میں کوئی اور نظر آتا ھے
عشق ھو جائے پڑھائی بھی بری لگتی ھے
کومل جوئیہ
"تم محبت میں کرو گے وفا مطلب کچھ بھی"
اُس نے یوں طنز کیا اور کہا "مطلب کچھ بھی"
میں کہ ہر لمحہ میسر ھوں تجھے جانِ جاں
پھر بھی تم کرنے لگے ھو گلہ "مطلب کچھ بھی
منٹو نے عورتوں کے بارے میں ایک بہت عمدہ رائے دی
وہ کہتے ہیں کہ عورت ہمیشہ اپنی مرضی سے مرد کے قابو میں آتی ھے اسکی مرضی کے بغیر اسے چھونا تو بڑی دور کی بات ھے محض ٹکٹکی باندھ کے تکنے پر بھی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ھے۔۔!"

ھمیشہ اپنی حیثیت کے لوگوں میں بیٹھیں ورنہ نئے آنے والے کے لئے آپ سے ھی سیٹ خالی کروائی جائے گی ۔
مُرشد نے اپنے حلقے میں بیٹھے ھوئے مُریدوں سے پُوچھا،رات،صُبح میں کس وقت ڈھلتی ھے
ایک مُرید نے بڑے ادب سے جواب دیا،حضرت" جب سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر آنے لگے صُبح ھوجاتی ھے"
دوسرے مُرید نے عرض کی
"ُحضور جب دُور کے درختوں کو دیکھ کر معلوم ھوجائے کہ بیری کا درخت کونسا ھے اور شیشم کا درخت کونسا تو صُبح ھو چُکی ھوتی ھے"
مُرشد نے یہ جواب سُن کر دیگر حاضرین کی طرف نظر دوڑائی،کسی اور کے پاس کہنے کو مزید کُچھ نہ تھا ،
اس پر مُرشد نے ارشاد کیا
"جب اتنی روشنی ھو جائے کہ تُم ضرورت مند کے چہرے پر اس کی ضرورت پڑھ سکو تو جان لو کہ رات جا چُکی ھے اور صُبح ھو گئی ھے"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain