نہ رکھنا خاص تم ہم کو، بھلے ھی عام رکھ لینا مگر محفل میں تم اپنی، فقط ہمارا نام رکھ لینا تمھارے نام سے پہلے ہمارا نام آئے تو ہمارے نام کو بےشک برائے نام رکھ لینا گوارا گر نہ ھو تم کو ہمیں احباب میں رکھنا تمھیں یہ بھی اجازت ھے، ہمیں گمنام رکھ لینا...
کہتے ہیں کہ میر تقی میر نے اپنا گھر بیچ کر کے اپنی اکلوتی بیٹی کو جہیز دیا تھا۔ شادی کے بعد بیٹی کو کسی نے کہا تیرے باپ نے اپنا گھر اجاڑ کر تیرا گھر بسا دیا، بیٹی بہت حساس تھی یہ سن کر وہ بیمار پڑ گئی اور اسی غم میں گھل گھل کر کچھ ھی دنوں میں انتقال کر گئی۔ میر تقی میر بیٹی کا آخری دیدار کرنے گئے٬ کفن اٹھا کر بیٹی کو دیکھا اور کیسا غضب کا شعر کہا(جو ان کی زندگی کا آخری شعر کہا جاتا ھے) اب آیا ھے خیال اے آرام جان اس نامرادی میں کفن دینا تمہیں بھولےتھے ہم اسباب شادی میں
محبت ہار جائے تو مداوا پھر نہیں ھوتا۔۔ فلک سے بارشیں اتریں گلوں پر تتلیاں ٹھہریں بہاریں آکے رک جائیں چمبیلی جس قدر مہکے بلا کا دلنشیں موسم کوئی اچھا نہیں لگتا۔۔ ندامت خیز آنکھوں میں لہو کے اشک لیکر بھی پلٹ کے آنے والا بھی کبھی سچا نہیں لگتا محبت ہار جائے تو مداوا پھر نہیں ھوتا
جنوں میں جرمِ وفا ، بار بار ھم نے کیا تیری نگاہ پہ ، کیوں اعتبار ھم نے کیا؟؟ ھمیں خبر تھی ، شبِ ھجر تُو نہ آئے گا خلوصِ دل سے ، مگر انتظار ھم نے کیا یہ اور بات کہ ، خود تو خزاں نصیب رھے تجھے تو ، شعلۂ رنگِ بہار ھم نے کیا اِسی میں تیری محبٌت کی ، ھر خوشی پائی کہ تیرے عشق میں ، ھر غم سے پیار ھم نے کیا
جو رنگ بھرے شعر میں ، پژمردہ ہیں سارے اب شہر کے خوش باش بھی ، افسردہ ہیں سارے شاخوں پہ ھوا ماتمی آواز میں روئی موسم بھی ترے بعد کے آزردہ ہیں سارے کومل جوئیہ