دُکھاں دے گل ٹَلّیاں بنھو
چُپ چپیتے آجاندے نیں
ساری وستی ڈھا جاندے نیں
صغیر تبسم
نِیچاں دی آشنائی کولوں فیض کِسے نہیں پایا
کِکر تے انگور چڑھایا ھر گُچھا زخمایا
میاں محمد بخش
دکھاں مینوں مار مکایا
سُکھاں دا اے کال نِی مائے
جندڑی میتھوں نبھدی ناہیں
اک واری فیر پال نِی مائے
اُٹھ فریدا سُتیا ، جَھاڑو دے مسِیت
تُوں سُتا رَب جاگدا،تیری ڈاھڈے نال پریت
بابا فرید
اِس عشق و ترکِ عشق میں
ناصحا کہاں سے آ گیا ؟
یہ اختیار آنکھوں کا ھے
یہ فیصلہ ھے دل کے پاس
احمد فراز
شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ھی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ھی سہی
——
ثمینہ راجہ کا یوم پیدائش
(پیدائش: 11 ستمبر 1961ء – وفات: 30 اکتوبر 2012ء)
خالی پڑے ھوئے ہیں میرے ہاتھ دیکھ لو
کوئی نہیں ھے آج میرے ساتھ ، دیکھ لو
میں جن کو دستیاب رھا قلب و جان سے
وہ جاتے جاتے کہہ گئے, اوقات دیکھ لو...
زلف بکھرا کر وہ جب سرِ بازار چلے
غُل مچا، شور اُٹھا مار چلے، مار چلے
یہ انسان کی فطرت ھے کہ جو چیز اُسےمکمل میسر ھو وہ اسکی قدر نہیں کرتا...
آسان لفظوں میں ”گھر کی مرغی دال برابر“
بچپن میں مجھے اس کہاوت کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا مگر اب جب خود پر بیتی تو خوب سمجھ آیا....
ھر ایک شخص کہاں سوئے دار آتا ھے
کسی کسی کے جنوں پر نکھار آتا ھے
کبھی کبھی تو خوشی زہر لگنے لگتی ھے
کبھی کبھی تو اداسی پہ پیار آتا ھے
یوں رہا کرنے کے امکان میں رکھا ھوا ھے
اس نے زندہ ہمیں زندان میں رکھا ھوا ھے
دل میرا زخم ھے اور زخم کو میں نے تابش
اُسکی یادوں کے نمکدان میں رکھا ھوا ھے
عباس تابش
کسی ٹوٹے ستارے جیسی نہیں
تیری حالت ہمارے جیسی نہیں
اب مرا ڈوبنا تو لازم ھے
اسکی نیت کنارے جیسی نہیں
اپنی قسمت کو کوسنے والے ۔۔۔۔
شکر کر ۔۔کہ ہمارے جیسی نہیں
مانگتی ھے ہر ایک پل کا قصاص
زندگی بھاٸی چارے جیسی نہیں
ضبط کی سب حدود پار ھوٸیں
حالت ۔۔ دل گزارے جیسی نہیں
ھے کسی قرض کی طرح بلقیس
اس کی قربت سہارے جیسی نہیں
بلقیس خان
بے سبب ہجر کے ملبے سے اٹھائی دستک
کوئی سنتآ ھی نہیں چیخ، دُہائی دستک
اس نے بس تین تلک گن کے مجھے مار دیا
!میں نے سو بآر یہ آواز لگائی دس تک۔۔۔
کومل جوئیہ
میرے پہلو میں نہیں ،آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانا ھے بہت دن سے ، ٹھکانا دل کا
نصیر الدین نصیر💔
صدائے چشم کو توجانتا نہیں شاید
کرے گی مدتوں پیچھا میری پکار تیرا
ترے ھی دھوکے سے دنیا سمجھ میں آئی ھے
لہذا شکریہ __ اے شخص بے شمار تیرا
دل تجھے ناز ھے جس شخص کی دل داری پر
دیکھ اب وہ بھی اتر آیا اداکاری پر
میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر
آدمی آدمی کو کھائے چلا جاتا ھے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر
کبھی اس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ھے غداری پر
تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رھا ھے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ھو تو مری دشواری پر
مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئنہ ہنسنے لگا ھے مری تیاری پر
کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ھے ہر شے کی خریداری پر
بس یہی وقت ھے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر
سلیم کوثر __
روسی کہاوت ھے کہ:
ملاقات کے صرف دو ھی معیار ھوتے ہیں،
خون ملتا ھو یا خیالات..!💯✌
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain