ہاں! یہ سچ ہے کہ ترستے تھے تکلّم کو کبھی
اب یہ کوشش کہ تیرا ذکر نہ ہو، بات نہ ہو
کاش ڈھونڈے تُو مجھے گھوم کے بستی بستی
اور دعا میری، کبھی تجھ سے ملاقات نہ ہو
فائدہ کیا ہے زمانے میں خسارہ کیا ہے
خاک ہو جائیں گے ہم لوگ ہمارا کیا ہے
جیتنے والوں کا ہم کو نہیں کچھ علم کہ ہم
ہار کر سوچتے رہتے ہیں کہ ہارا کیا ہے
دیکھو اے عمرِ رواں خواہشیں رہ جائیں گی!
تم گزر جاؤ گی چُپکے سے تمھارا کیا ہے
وہ اگر دیکھ لے اک بار محبت سے تو پھر
ذر٘ۂ خاک چمک اُٹھے ستارہ کیا ہے
دلاورعلی آزر
بکھری ہوئی ہے یوں مری وحشت کی داستاں
دامن کدھر کدھر ہے گریباں کہاں کہاں
✍️ : مبارکؔ عظیم آبادی
(یوم پیدائش 29 اپریل 1849)
ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
احمد فراز
کہیں مِلے کوئی اپنا تو پُھوٹ کر رو لُوں
کئی دِنوں سے بہت مُسکرا رہا ہُوں میں
ندا فاضلی
دل بھی پایا تو بلا کا زود رنج
اک اداسی گھیرے رہتی ہے اسے
۔۔۔۔
نادیہ عنبر لودھی
ایسی بے چین طبیعت سے کہیں بہتر ہے
ہم کسی دشت بیاباں __کی وحشت ہوتے




نا آشنائے حُسن کو کیا اعتبارِ عشق
اندھوں کے آگے بیٹھ کے رویا نہ کیجیے

دل زار توں بھی بدل کہیں "کہ جہاں کے تیور بدل گئے

میں تمہیں آزاد کرتی ہوں،
خود سے آزاد،
اپنے متلون مزاج سے آزاد،
تمھیں چاہنے کی دیوانگی سے آزاد،
تمھارا بےمثال خیال رکھنے کی تڑپ سے آزاد۔
میں تمھیں آزاد کرتی ہوں،
اپنی بے حد، نگران محبت سے آزاد،
خود سے مکمل طور پر آزاد۔
مگر میں التجا کرتی ہوں،پلٹ کر مت آنا٬
جب تمھیں احساس ہو
کہ کوئی بھی تمھیں یوں نہ چاہ سکے گا جیسے میں نے چاہا،
تو براہِ کرم لوٹ کر مت آنا۔
فریڈا کاہلو




submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain