title:kia farq prta ...page 11 writer:M.Shakil "مم مم ماریہ میری بات سنو"شیراز نے لرزتے ہوے کہا ۔مجھے تم سے کچھ نہں سننا, تم ایک کافر ہوجو خدا کو نہں مانتا۔میں اسیےکافر کے ساتھ ساری زندگی تو کیا دو منٹ بھی نہیں رہ سکتی جو اتنے وقت سےاپنا عقیدہ چھپاے ہوے ہے۔شیراز کی انکھیں لال ہو جاتی ہیں, بیچے ہوے گردے سے ہلکی سی تکلیف اٹھنے کی وجہ سے۔ اوہ! ماریہ کیسے دیکھ سکتی تھی چشمہ جو لگا ہواتھا,شیراز کی انکھوں پہ۔ ماریہ کے لمبے سفید بازو کو شیراز نے اپنے غیر ہموار ہاتھوں سے پکڑا اور کہا "مزہب کو نہ ماننے والاکافر نہں ہوتا بلکہ اخلاقی فطرت کو نہ ماننےوالا کافر ہوتا ہے یہی فطرت میرا خدا ہے۔میں اسی خدا کو مانتا ہوں۔میں ہر مزہب کو عزت دیتا ہوں۔تمہیں تمہارے مزہب کے ساتھ قبول کرنا چاہتا ہوں"
جب ماریہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوتی ہے تو شیراز اسے اپنی محبت سے اگاہ کرتاہے۔شاید شیراز اب وہ پرانا نہیں رہا شرمیلاپن ختم,ورزش چھوڑنے کی صورت میں اسکی کمر کے نیچے چربی لٹکی ہوی جو ٹی شرٹ سے واضح نظر اسکتی تھی۔ ماریہ اسکی باتیں سننے کے بعد خودبھی اظہار کرتی ہے۔دونوں ہنسی خوشی ساتھ رہنے کاپروگرام بناتے ہیں۔ شیراز چاہتا تھا وہ ماریہ کو سب کچھ بتا دے کہ وہ ایک منکر خدا تھا۔بہرحال وہ ماریہ کو اپنے کمرے لاتا ہے اسکے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہے۔ماریہ انتظار کرتے کرتے اسکے بیگ میں ہاتھ ڈال کے کتابیں دیکھتی ہے جنکے نام: God delusion,the case against God اسکے بعد ماریہ کا شک یقین میں بدل جاتا ہے جب شیراز کی ڈایری پڑھتی ہے۔شیراز کھانا لے کر اتا ہے توماریہ کو اس حالت میں پڑھ کے دیکھ کے شششد ہو جاتاہے۔
title:kia farq prta ha..page 9 writer:Muhammad Shakil zafar ایک مہینہ کا سات لاکھ واپس کرنے کی اخری تاریخ تھی اسکے بعد سود ڈبل ہو جانا تھا۔شیراز غیر قانونی طریقے سے اپنا گردہ فروخت کرکے قرض اتارتا ہے,ماریہ کو بتاے بغیر۔ ایک ہفتے بعد ماریہ کو ہسپتال سے ڈسچاج ہونا تھا اور وہ دن اج تھا شیراز اسکے لیے بہترین سکرٹ لایا تھا ۔ماریہ کی ٹانگیں کافی بہتر ہو چکی تھیں۔لیکن بیڈ پر لیٹنےکی وجہ سے اسکی کمر کے نیچے ہلکے سے زخم تھے۔ خیر, ماریہ نیے کپڑوں میں پرکشش لگ رہی تھی۔ شیراز کے سر پہ دو,تین پتےگرے ہوے تھے جسکو ماریہ نے لمبی کمزور,زرد انگلیوں سے جھاڑ دیا۔
title:kia farq prta ha ..page 8 writer:Muhammad Shakil zafwr ماریہ نے شیراز سےمسلسل لگے ہوے چشمیں کے بارے میں پوچھا تو شیراز نے سچ چھپانے کے لیے کہا کہ ایک دفعہ ایک شریر لڑکے نیں غلیل سے اسے نشانا لگایا جس سے انکھ چلی گی۔ یہ سن کر ماریہ منہ کھول کے ہنسنے لگی "ہاہا۔شیراااااااااااز غولیییییل" ایسا کرنے سے اسکی انکھوں کے نیچے جھریاں بنننے لگیں۔ ماریہ کی خوبصورتی پھیکی پڑ چکی تھی۔ لیکن شیراز کو فرق نہیں پڑتا تھا اسے یہ ویسی ہی لگتی تھی۔ سرکاری ناشتےکا وقت اتا ہے(ہاں اس پرایویٹ ہسپتال میں دو وقت کا کھانا مفتی تھا) توشیراز ماریہ کو کھلانے کے بعد ماریہ کا بچا ہوا کھانا خود کھاتاہے اور اپنا کھانا ہسپتال کےسامنے 79 سال کے ادمی کو دے اتا ہے ,معمول کےمطابق۔
title: kia farq prta ha..page 7 writer: Muhammad Shakil Zafar خیر تین ہفتوں بعد ماریہ کو واڈ شفٹ کیاجانا تھا۔ شیراز خوش تھا, شاید کہ ماریہ جلد صحتیاب ہو رہی ہے ۔ وارڈ منتقلی کے بعد وہ ماریہ کے ساتھ زیاہ وقت گزار سکتا تھا۔ وہ روز اسکو معزوروں والی کرسی پہ ہسپتال کے چھوٹے سے پارک کی سیر کرواتا۔ٹھیک اسی طرح جیسے وہ ستاتیس مہینےپہلےکیا کرتھے اسی وقت4:39 پہ۔ رات کےوقت شیراز, ماریہ کے بیڈ کے دایں جانب پڑے ہوے چھوٹے بینچ پہ راتیں گزارتا۔ نیند کی کمی کی وجہ سےشیراز کی انکھوں کے نیچے دھبے بننے شروع ہو گے لیکن اسے ان چیزوں سے کچھ خاص فرق نہیں تھا۔
tite: kia farq prta ha..page 6 writer: Muhammad Shakil Zafar ڈاکٹرز کی بھر پور محنت سے ماریہ کو مکمل ہوش انے لگا۔ صبح کے 8:39 پہ لڑکے کو اواز اتی ہے کہ ماریہ ہوش میں ارہی ہے تو وہ جلدی سے اپنا چاے کا کپ رکھتا ہے اور ماریہ انکھیں کھول رہی ہوتی ہے جب ماریہ انکھیں کھولتی ہے تو کہتی ہے "شیراز تو.. تو...تم یہاں کیسے اور میں, مجھے سمجھ نہیں ارہی۔ جی ہاں اسکا نام شیراز تھا جوستایس مہینے بعد بے ہوش ماریہ کو ہسپتال لایا۔ ماریہ کو اسکانام اتنے مہینے بعد کیسے یاد رہا اس میں اسے دلچسپی نہیں تھی۔ پھر وہ پچھلے کچھ دنوں والی کہانی بتاتا ہے کیسے ماریہ ہسپتال ای۔ ماریہ کی انکھیں بھیگ چکی تھیں ۔
title: kia farq prta ha,,page 5 writer: Shakil_77 روز ICU کے سامنے پڑا رہتا لیکن جب ماریہ کی غذا,صفای ستھرای کا وقت اتا تو جلدی سے اندرجاتا۔ماریہ غذا کی نالی سے خوراک لے سکتی تھی صرف اور وہ بھی یخنی ,سوپ وغیرہ کی شکل میں۔وہ نیم بےہوش ماریہ کی منہ سے نکلنے والی جھاگ کو صاف کرتا۔اسکا ڈایپر خود تبدیل کرتا,اسکی شیو کرتا یہاں تک کہ اسکی جلد پہ ناریل تیل کا ہلکہ سا مساج کرتا تا کہ نرم رہے۔ اسے یہ سب کرنے کے لیے دشواری پیش ارہی تھی۔اسکی انکھوں پہ چشمہ تھا جو ماریہ کو دی جانے والی ایک انکھ کے گڑھے کو چھپانے کے لیے اس نے لگایا تھا۔ تاہم, وہ یہ سارا اخراجات خود برداشت کر رہا تھا اپنی چیزیں بیچ کر۔اب اسکے پاس اسکی صرف کتابیں رہ گی تھیں لیکن وہ اگر ایک انکھ,سود پہ سات لاکھ لے سکتا تھا, تو یہ یونانی,فرانسیسی تاریخ و فلسفہ کیا چیز تھا؟
Title: kia farq prta ha,,page 4 writer: Muhammad Shakil Zafar وہ اور ماریہ ایک دوسرےکو انتالیس مہینوں سے جانتے تھے جب وہ پہلی دفع ماریہ کو ملا اکیس برس کا شرمیلا لڑکا تھا جو بڑی مشکل سے انکھیں میں انکھیں ملا پاتا تھا۔پھر وہ اور ماریہ روزانہ 4:39 پہ پارک میں ٹہلا کرتے ۔یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا۔اہستہ اہستہ اسے ماریہ سے محبت ہو گی شاید وہ ماریہ کے زیادہ قریب ہونے اور اسکا منفی جواب سننے سےڈرتاتھاکہ اگر ماریہ برا مان گی تو؟شاید اسےاس چیز سے فرق پڑتا تھا۔ ماریہ اسے صرف اپنا دوست سمجھتی تھی۔ ایک سال کی خفیہ محبت چھورڑ کر وہ دوسرے شہر چلاگیا ماریہ کو بغیر بتاے۔اور تین دن پہلے,ستایس مہینوں بعد واپس ایا تو ماریہ کو سڑک پہ گرا ہواپایا۔
title: kia farq prta ha,,,page 3 writer: Shakil_77 اگلی صبح اسکی انکھ کا اپریشن سے انکھ نکال کے ماریہ کو لڑکے کی انکھ مل جاتی ہے۔اسے اپنی انکھ جانے کا خیال نہیں رہتا۔شاید اسےاپنے کیے پہ پچھتاوا کبھی نیں ہواٍ, تو اج کیسے ہوتا ملال! وہ خود سے کہ رہا تھا کہ ماریہ کا قد اس سے دو انچ زیادہ ہے اور وہ ہمیشہ انہیں دو انچ کا گیپ دیکھنا چاہے گا۔ اسکی یہ بھی تمنا پوری ہوگی ماریہ کی ٹانگوں کا اپریشن بھی صحیح ہوگیا۔شاید وہ بہت خوش تھا ماریہ کی مکمل لیکن بےہوش جسم کو دیکھ کے۔ اسے ماریہ ہمیشہ سے بہت خوبصورت لگتی تھی ۔ اسکی لمبی قد, ہلکے سنہری چھوٹے بال, چوڑا کشادہ چہرہ , اسکے چہرے کے ہڈیوں پہ گوشت سختی سے چپکا ہوا ثھا اور چھوٹاسا ماتھا۔
ماریہ کا علاج جاری ہےعارضی طور پہ ٹیکے اور میڈیسن دے کر ان کے خون کا بہاو روک دیا گیا۔ اپ دعا کریں انکی صحت کے لیں انکی حالت بہت نازک ہے, ڈاکٹر نے لڑکے سے کہا۔ لڑکا کیسے دعا کرتا وہ دعا اور خدا دونوں کو نہیں مانتا تھا وہ ایک Atheist تھا۔بہرحال اس نے ڈاکٹر کے کہنے پہ ہاتھ اٹھالیے اور سوچ رہاتھا کہ کہ ڈاکٹرز کا یہ حال ہے انہوں نے میڈیکل ساینس کو دعا کہ محتاج کر دیا اسکے نذدیک دعا وقت کا ذایع تھا نہ کہ معجذہ ۔ بہرحال, ڈاکٹر باہر چلے جاتے ہیں اور اسے بتا دیا جاتا ہے کہ صبح کے 10:39 پہ اسکی انکھ کا اپریشن کرکے ماریہ کو عطیہ کیا جاے گا۔ وہ ساری رات سوچتا رہا کہ کل کے بعد اسکے پاس ایک انکھ بچے گی لیکن اسنے ماریہ کے تکیہ پہ ہاتھ رکھتے ہوے کہا ”کیا فرق پڑتا ہے انکھ ایک ہو یا دو جسکو دیکھنا ہے وہ ایک سے ہی نظراےگی ۔شاید میری انکھی ماریہ کے لیے بنی ہ
Story title:Kia farq prta ha... page 1 written by Shakil_77 جلدی جلدی مریضہ کو ICU میں شفٹ کرو مصنوعی سانس بہال کرنی ہے,ڈاکٹرز نے نرسز سے کہا۔ لڑکا اپنی موٹی موٹی بھوری بھوری آنکھوں,اور ناخن چباتے ہوے لاچار لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ وہ زندہ بچے گی یا نہیں جسکو ابھی ہسپتال لایا تھا۔لڑکے نے ہمت کرکے انتالیس منٹ بعد ڈاکٹر سے ماریہ کا حال پوچھا ڈاکٹر نے کہا کہ شدید ایکسیڈنٹ سے ماریہ کی ٹانگیں زخمیں, ایک آنکھ ختم ہوچکی ہے۔لڑکے نے منت سماجت کرکے ڈاکٹرز سے کہا, آپ براہ مہربانی انکی ٹانگیں بچالیں اور میری ایک آنکھ انکو لگادیں۔دستاویز پہ دستخط کرنے کے بعد وہ سات لاکھ کے انتظام کے لیے وہ کسی دوست کے پاس نہیں جاتا,شاید کوی دوست نہیں تھا, بلکہ کسی کمپنی سے سود پہ ادھار لیتاہے۔
If you think God exists you are certain, If you think He doesn't exist you are certain. Why are you certain in both case? Insofar as you think you realise existence of things. Muhammad Shakil