Writer:Shakil
page:51
انسان ہر جرم کے بعد پچھتاتا ہے،کیا کیشین پچھتایا؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ اگر وہ انکا قتل نہ کرتا تو ساری زندگی اسے ایک پچھتاوے کے ساتھ گزارنا پڑتا کہ جرم زندہ ہے۔
کیشین ماہنور کو یہ سب کچھ نہیں بتاتا کیوں؟ وہ نہیں چاہتا تھا ماہنور اپنی بامعنی زندگی میں ایک بار پھر بےمعنی،بےاضطرابی لاۓ" کیشین کی بےچینی ختم ہوئ ۔لیکن جیل میں کونسا سکون ہے؟ کیشین اس پیدا ہونے والے سوال کو یوں ختم کرتا ہے:اگر جیل چھوٹی ہے،تو کیا جس دنیاں میں لوگ رہتے وہ بڑی ہے؟ نہیں ۔۔وہ بھی تو کسی سیارے کی نسبت چھوٹی ہے۔بالکل جس طرح یہ جیل زمین کے مقبلے چھوٹی ہے۔
writer:shakil
page:50
کیشین ،رمشا کو گائناایکولوجسٹ کے پاس لاتا ہے اسکے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے اسکو پیدائش کرواکے ۔رمشا کو ایک سنسان جگہ پہ لے جا کے ایک گولی اسکے کانوں میں،دو گولیاں اسکے ویجائنا میں گھوپ دیتا ہے۔وہ اسی وقت دم توڑ گی۔اس کو وہیں پڑا رہنے دیتا ہے۔خون سے لت پت کیشین منہ دھو کر ماہنور کے گھر جاتا ہے۔اسے بچہ سونپ دیتا ہے تاکہ وہ چرچ کے ساۓمیں بڑا ہو کر اچھا آدمی بنے۔کیشین اسکو یہ ن بتاتا کہ یہ بچہ اسے سڑک پہ ملا ہے۔ماہنور بچہ لے کر کمرے میں چلی جاتی ہے۔کیشین واپس لوٹ کر پولیس کو اپنی گرفتاری دے دیتا ہے۔
پولیس اسے جیل میں پھینکتی ہے۔اب اسے بہت سکون تھا کہ وہ جیسے نیک کام کر آیا ہو۔اسے جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔
writer:Shaki
page:48
کیشین اگر یہ سب کچھ بتا دیتا کہ شاہبہرام ہی سلمان ہے تو کیا ماہنور برداشت کرسکتی؟ اسکی نئ روحانی زندگی کا کیا ہوتا؟ بیشک وہ مضبوط تھی لیکن انسان ایک جزبات سے گھری ہوئ مخلوق ہے وہ لالچ،احساس،خواہشوں کے بوجھ تلے آسکتا ہے،ماہنور بھی اس انہی انسانوں کی طرح تھی جو برداشت نہ کرپاتی کہ کیسے اس نے اہنی زندگی ایک منشیات ڈیلر،ایک بدکار انسان،ایک مجرم سے محبت کرکے گزاری ہے۔کیشین ماہنور کی روحانی زندگی کی خاطر بے بس تھا۔لیکن کیوں ،کیشین کا کیا رشتہ تھا ماہنور سے؟۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔پھر بھی
اب کیشین کے پاس دو راستے تھے رمشا سے شادی کرکے اسے بیوی بنایا جاے یا عدالت کی طے شدہ سزا لی جاۓ
Writer:Shakil
page:47
کیشین کی ہمدردی کے لیے اسکے گوہوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ۔جس میں چرچ کےبچے،پادری،اور ماہنور سب نے کیشین کے بارے میں مثبت انداز دیے کہ وہ اسے کتنا جانتے ہیں۔اسکا جتنے عرصے سے انکو جاننا ہے وہ کتنا اچھا ہے۔لیکن یہ سب اسکے گواہ تو نہی تھے لیکن محض کیشین کو بے قصور ٹھرانے کے لیے راۓ دے رہے تھے۔ حارث ایک اچھا وکیل تھالیکن ویڈیو جیست ثبوت کے آگے وہ بے بس تھا۔بیشک وہ ویڈیو غلط تھی لیکن قانون ثبوت مانگتا ہےلیکن جزبات،احساس صرف جنونیت کی زبان ہے قانون کی نہیں۔
جج صاحب نے ثبوت مانگا کیشین کہ پاس تھا۔وہ بتا سکتا تھا کہ شاہبہرام ہی سلمان ہے اور اسکا سارا کھیل ختم کرسکتا تھا۔
writer:shakil
page:45
کیشین صبح اٹھ کر اپنے آپکو رمشا کے ساتھ ننگی حالت میں پا کر ششد رہ جاتا ہے۔ لیکن اسے کچھ یاد نہیں تھا۔اسے صرف شک تھا،لیکن شک کی بنیاد پہ راۓ نہیں رکھ سکتے۔وہ اٹھتا ہے اپنے کپڑے پہنتا ہے ۔کمرے سے باہر آکر شاہبہرام کے روم کی طرف سیڑھیاں چڑھتاہے ۔اس وقت شاہبہرام اپنے کمرےسے باہر کسی سے ملنے گیا تھا۔اسکے کمرے کے اندر جاتا ہے اسکے کمرے کا معانہ کرتا ہے اسکے دستاویز کی۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ شاہبہرام فیک شناخت کے ساتھ ہے اسکا اصل نام سلمان ہے۔اور وہ اسکی سرجری سے پہلے والی تصویریں بھی دیکھتا ہے۔
اتنے میں شاہبہرام آتا ہے لیکن وہ اپنی اصلیت کا پتہ لگنے پہ ذرا بھی نہیں گھبراتا۔
writer:Shakil
page: 43
راستے میں کیشین ونڈو سیٹ کے پاس بیٹھا بہار کے موسم کی دھوپ کا مزہ لے رہا تھا۔اسکی ساری سردی مری کی سردی میں گزری۔آرمی کی گاڑی انکے ڈرائور کو روک کے سیٹوں کا معائنہ کرتی ہے کہ کوئ مشکوک چیزیں تو نہیں ہیؔ۔اس گروپ کا لیڈر کوئ اور نہیں بلکہ کیپٹن عثمان تھا۔کالج میں دونوں اکٹھے پڑھتے تھے۔آج وہ آرمی میں اور کیشین اپنی آزمائشوں میں۔کیشین اس سے بغیر تعلق کیے خاموش رہ کے ٹال دیتا ہے،کیپٹن عثمان نے اسے ابھی تک نہیں دیکھ سکا وہ ونڈو کے باہر سگریٹ پی رہا تھا اور کیشین اندر سیٹ سے لگا ہوا۔
جب وہ لاہور آۓ تو انہیں انکے کمرے الاٹ ہوۓ،مری کے برعکس، یہاں کیشین کو سٹوڈیو کی طرف سے رہائش مل رہی تھی۔
writer:محمد شکیل
page:41
رمشا کیشین کے پاس آنے کی کوشش کرتی تھی کیشین اس سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتا تھای۔کیشین اسکو چاہتا تھا پھر بھی،لیکن کیوں؟ اس وجہ سے سے کہ وہ ایک غریب لڑکی سے ایک امیر فحشہ بن چکی ہے جو اپنے مقصد پورا کرنے کے لیے خطرناک حد تک جانے والی لڑکی ہے یا پھر وہ بھی اسے چاہتا تھا لیکن دور رہتا تھا۔نظرانداز کرتا تھا۔"کچھ لوگ جنکو چاہتے ہیں وہ انکو اس لیے اگنور کرتے ہیں کہیں انکے عادی نہ ہو جائں" کافی دفع رمشا اسے کہ چکی تھی کہ وہ شاہبہرام کو محض پیسے کے لیے پسند کرتی ہے۔شاہبہرام ،رمشا سے بائس برس بڑا تھا۔ رمشا محض تئیس،چوبیس برس کی تھی۔ وہ کیشین کے بارے میں جنونی تھی۔
Writer:محمد شکیل
page:40
اسٹوڈیو کا ماحول بہت مغربی طرزعمل پہ تھا۔ میل،فیمیل سٹاف،ماڈلز،یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ دھاگے کی مانند لپٹے ہوۓ تھے۔ان کے کپڑے سٹوڈیو میں ویسے ہی ہوتے جیسے اسنے باہر مال روڈ پہ لڑکی کو دیکھا۔اور سٹوڈیو کے باہر انکے معاشرے کے اصولوں پہ پورا اتر رہے تھے۔کیا یہ برا ایمان(بیڈ فیتھ) نہیں کہ باہر اور اندر اور یا پھر آزادی کا ایک نیا طریقہ تھا۔کیشین سٹوڈیو میں موجود تمام لوگوں کے افئر جانتا تھے ۔اس نےلوگوں کو اپنی آنکھوں سے، کئں دفع سیکس کرتے دیکھا۔ اسے ان چیزوں سے گھٹن نہیں ہو رہی تھی اسکے نزدیک یہ انکا اپنا انتخاب تھا جسکے ذمہدار وہ خود ہوں گے۔ووت گزرتا گیا کیشین کو اس سٹوڈیومیں کافی مہینے ہو گۓ۔اب اگلے ہفتے انکے ایک اور سٹوڈیو کا لاہور میں اففتاح ہونا تھا۔
writer:M.shakil
page:37
اب اسے محسوس ہوا سخت گرمی میں برقعہ ہوا یا شدید سردی میں پتلا،تنگ ٹراوزر، ان سب چیزوں کا تعلق انسان کی آزاد انتخاب پہ ہے۔کسی ایک کی نظر میں سچ کسی دوسرے کے نظر میں جھوٹ ہوسکتا ہے۔اسکی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ " مری،اور لاہور میں اس وقت شام ہے تو اسکا مطلب پوری دنیا شام سے گھری ہوئ نہیں بلکہ یہ شام صرف مری،لاہورتک محدود ہے۔کیونکہ لاس اینجلس میں اس وقت صبح ہے۔ یہ بات واضح کرتی ہے سچ جگہ اور ذہنیت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے" دونوں برقعے اور تنگ ٹراوزر والی لڑکیاں اپنی جگی پہ پرفیکٹ ہیں کیونکہ دونوں کا وجود اپنا ہے۔اگر کسی میٹریل کا وجود اپنا ہوتا ہے تو اسے آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئ کام کرسکے۔
writer:Shakil
page:36
بھیگی سڑک پہ ایک لڑکی چل رہی جس نے اتنی سردی میں بہت پتلے اور تنگ کپڑے پہنے ہوۓ تھے۔اس نے ٹی شرٹ(بغیر جیکٹ کے)، اور نیچے ٹراوزر تھا۔اسکا ٹراوزر کہیں سے زیادہ ٹائٹ کہیں سے بہت لوز تھا۔حتی کہ اسکے پرایویٹ پارٹس بھی واضح نظر آرہےتھے
۔کیشین کے اندر فوری سے وہی سوال پیدا ہوے جب اسنے ستمبر کی حبس والی گرمی میں لاہور ایک مقام پر برقعے میں دو خواتین کو دیکھا جو گرمی کے باوجود پہنے ہوے تھی
۔اب اسنے خود سے سوال کیا "اس لڑکی کو سردی نہیں لگ رہی؟اسے فالج بھی ہوسکتا ہے،اگرمیں اسکی جگہ ہوتا تو شاید ٹھنڈ سےبیمار
ہو جاتا۔
ڈریسنگ اور اظہار ہر انسان کے اپنے وجود پہ منحصر ہوتا ہے۔یہ چیزیں کسی نظریہ کے محتاج نہیں ہوتی ہیں۔
writer:Shakil Zafar
page:35
وہ چاۓ کا کپ پکڑ کے،سوتی کی چادر اپنےاوپر اوڑھ کے ونڈو گلاس کے پاس آیا۔اسے لوگوں کا بارش میں بھیگنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اسکے زندگی کا،اسکے سامنے یہ پہلا خوبصورت منظر تھا۔اسے خود بارش میں نہانا اچھا نہیں لگتا لیکن لوگوں کو بھیگتے دیکھ کے وہ بہت خوش تھا۔اور ساتھ ہی کانپنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا جیسے خود بھیگ رہا ہو۔کیا نظارہ تھا: مری کے مال روڈ کی سڑک،بارش،گلاس ونڈو کے پیچھے کیشین ہاتھ میں چاۓ کا کپ اوپر سے کانپنا!"بارش ختم ہوتے ہی اسکی چاۓ بھی ختم ہوتی اور وہ اب سنجیدہ موڈ میں کہتا ہے "کتنے بیوقوف ہیں یہاں کے لوگ جو اتنی ٹھنڈ میں بارش میں بھیگ رہے تھے۔یہ کہ کے وہ اپنے کمرے سے باہر آتاہے یہ کوئ شام کے چاربجے کا وقت تھا۔
writer:محمد شکیل ظفر
page: 34
کیشین کومری آۓ ہوۓ تین ماہ گزگۓ اب سردیاں آچکی تھیں-اسے سردیاں پسند تھیں لیکن مری کی سردی اسکے علاقے کی سردی سے زیادہ شدید تھی۔وہ چاہے جسمانی طور پہ سخت تھا لیکن جاڑا برداشت کرنا اتنا آسان نہی تھا۔وہ شام کے وقت مال روڈ پی گھومتا ہے بلیک "آؤٹ فٹر" کی جیکٹ پہن کے،جسکےنیچے بھوری ٹی شرٹ اور نیلی لیوائز کی جینز تھی مست چل رہا تھا۔اچا نک سے بارش آتی ہے وہ جلدی سے اہنےکمرے میں چلا جاتاہے۔ لوگ بارش انجواۓ کرنے کے کے لیے گھر سے باہرآۓ اورکیشین اندر چلاگیا۔کیا کیشین کوبارش میں انجواۓکرنا پسند نہیں تھا؟ ہاں اسے پسند تھا۔لیکن اسکا انجواۓ طریقہ بہت الگ تھا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain