Damadam.pk
Shakil_77's posts | Damadam

Shakil_77's posts:

Shakil_77
 

Writer:Shakil
page:47
کیشین کی ہمدردی کے لیے اسکے گوہوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ۔جس میں چرچ کےبچے،پادری،اور ماہنور سب نے کیشین کے بارے میں مثبت انداز دیے کہ وہ اسے کتنا جانتے ہیں۔اسکا جتنے عرصے سے انکو جاننا ہے وہ کتنا اچھا ہے۔لیکن یہ سب اسکے گواہ تو نہی تھے لیکن محض کیشین کو بے قصور ٹھرانے کے لیے راۓ دے رہے تھے۔ حارث ایک اچھا وکیل تھالیکن ویڈیو جیست ثبوت کے آگے وہ بے بس تھا۔بیشک وہ ویڈیو غلط تھی لیکن قانون ثبوت مانگتا ہےلیکن جزبات،احساس صرف جنونیت کی زبان ہے قانون کی نہیں۔
جج صاحب نے ثبوت مانگا کیشین کہ پاس تھا۔وہ بتا سکتا تھا کہ شاہبہرام ہی سلمان ہے اور اسکا سارا کھیل ختم کرسکتا تھا۔

Writer sheela
S  : Writer sheela - 
Shakil_77
 

writer:shakil
page:45
کیشین صبح اٹھ کر اپنے آپکو رمشا کے ساتھ ننگی حالت میں پا کر ششد رہ جاتا ہے۔ لیکن اسے کچھ یاد نہیں تھا۔اسے صرف شک تھا،لیکن شک کی بنیاد پہ راۓ نہیں رکھ سکتے۔وہ اٹھتا ہے اپنے کپڑے پہنتا ہے ۔کمرے سے باہر آکر شاہبہرام کے روم کی طرف سیڑھیاں چڑھتاہے ۔اس وقت شاہبہرام اپنے کمرےسے باہر کسی سے ملنے گیا تھا۔اسکے کمرے کے اندر جاتا ہے اسکے کمرے کا معانہ کرتا ہے اسکے دستاویز کی۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ شاہبہرام فیک شناخت کے ساتھ ہے اسکا اصل نام سلمان ہے۔اور وہ اسکی سرجری سے پہلے والی تصویریں بھی دیکھتا ہے۔
اتنے میں شاہبہرام آتا ہے لیکن وہ اپنی اصلیت کا پتہ لگنے پہ ذرا بھی نہیں گھبراتا۔

Writer:Shakil
S  : Writer:Shakil - 
Shakil_77
 

writer:Shakil
page: 43
راستے میں کیشین ونڈو سیٹ کے پاس بیٹھا بہار کے موسم کی دھوپ کا مزہ لے رہا تھا۔اسکی ساری سردی مری کی سردی میں گزری۔آرمی کی گاڑی انکے ڈرائور کو روک کے سیٹوں کا معائنہ کرتی ہے کہ کوئ مشکوک چیزیں تو نہیں ہیؔ۔اس گروپ کا لیڈر کوئ اور نہیں بلکہ کیپٹن عثمان تھا۔کالج میں دونوں اکٹھے پڑھتے تھے۔آج وہ آرمی میں اور کیشین اپنی آزمائشوں میں۔کیشین اس سے بغیر تعلق کیے خاموش رہ کے ٹال دیتا ہے،کیپٹن عثمان نے اسے ابھی تک نہیں دیکھ سکا وہ ونڈو کے باہر سگریٹ پی رہا تھا اور کیشین اندر سیٹ سے لگا ہوا۔
جب وہ لاہور آۓ تو انہیں انکے کمرے الاٹ ہوۓ،مری کے برعکس، یہاں کیشین کو سٹوڈیو کی طرف سے رہائش مل رہی تھی۔

Writer shakil
S  : Writer shakil - 
Shakil_77
 

writer:محمد شکیل
page:41
رمشا کیشین کے پاس آنے کی کوشش کرتی تھی کیشین اس سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتا تھای۔کیشین اسکو چاہتا تھا پھر بھی،لیکن کیوں؟ اس وجہ سے سے کہ وہ ایک غریب لڑکی سے ایک امیر فحشہ بن چکی ہے جو اپنے مقصد پورا کرنے کے لیے خطرناک حد تک جانے والی لڑکی ہے یا پھر وہ بھی اسے چاہتا تھا لیکن دور رہتا تھا۔نظرانداز کرتا تھا۔"کچھ لوگ جنکو چاہتے ہیں وہ انکو اس لیے اگنور کرتے ہیں کہیں انکے عادی نہ ہو جائں" کافی دفع رمشا اسے کہ چکی تھی کہ وہ شاہبہرام کو محض پیسے کے لیے پسند کرتی ہے۔شاہبہرام ،رمشا سے بائس برس بڑا تھا۔ رمشا محض تئیس،چوبیس برس کی تھی۔ وہ کیشین کے بارے میں جنونی تھی۔

Shakil_77
 

Writer:محمد شکیل
page:40
اسٹوڈیو کا ماحول بہت مغربی طرزعمل پہ تھا۔ میل،فیمیل سٹاف،ماڈلز،یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ دھاگے کی مانند لپٹے ہوۓ تھے۔ان کے کپڑے سٹوڈیو میں ویسے ہی ہوتے جیسے اسنے باہر مال روڈ پہ لڑکی کو دیکھا۔اور سٹوڈیو کے باہر انکے معاشرے کے اصولوں پہ پورا اتر رہے تھے۔کیا یہ برا ایمان(بیڈ فیتھ) نہیں کہ باہر اور اندر اور یا پھر آزادی کا ایک نیا طریقہ تھا۔کیشین سٹوڈیو میں موجود تمام لوگوں کے افئر جانتا تھے ۔اس نےلوگوں کو اپنی آنکھوں سے، کئں دفع سیکس کرتے دیکھا۔ اسے ان چیزوں سے گھٹن نہیں ہو رہی تھی اسکے نزدیک یہ انکا اپنا انتخاب تھا جسکے ذمہدار وہ خود ہوں گے۔ووت گزرتا گیا کیشین کو اس سٹوڈیومیں کافی مہینے ہو گۓ۔اب اگلے ہفتے انکے ایک اور سٹوڈیو کا لاہور میں اففتاح ہونا تھا۔

Writer shakil
S  : Writer shakil - 
Romantic Novels image
S  : Writer Shakil - 
Shakil_77
 

writer:M.shakil
page:37
اب اسے محسوس ہوا سخت گرمی میں برقعہ ہوا یا شدید سردی میں پتلا،تنگ ٹراوزر، ان سب چیزوں کا تعلق انسان کی آزاد انتخاب پہ ہے۔کسی ایک کی نظر میں سچ کسی دوسرے کے نظر میں جھوٹ ہوسکتا ہے۔اسکی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ " مری،اور لاہور میں اس وقت شام ہے تو اسکا مطلب پوری دنیا شام سے گھری ہوئ نہیں بلکہ یہ شام صرف مری،لاہورتک محدود ہے۔کیونکہ لاس اینجلس میں اس وقت صبح ہے۔ یہ بات واضح کرتی ہے سچ جگہ اور ذہنیت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے" دونوں برقعے اور تنگ ٹراوزر والی لڑکیاں اپنی جگی پہ پرفیکٹ ہیں کیونکہ دونوں کا وجود اپنا ہے۔اگر کسی میٹریل کا وجود اپنا ہوتا ہے تو اسے آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئ کام کرسکے۔

Shakil_77
 

writer:Shakil
page:36
بھیگی سڑک پہ ایک لڑکی چل رہی جس نے اتنی سردی میں بہت پتلے اور تنگ کپڑے پہنے ہوۓ تھے۔اس نے ٹی شرٹ(بغیر جیکٹ کے)، اور نیچے ٹراوزر تھا۔اسکا ٹراوزر کہیں سے زیادہ ٹائٹ کہیں سے بہت لوز تھا۔حتی کہ اسکے پرایویٹ پارٹس بھی واضح نظر آرہےتھے
۔کیشین کے اندر فوری سے وہی سوال پیدا ہوے جب اسنے ستمبر کی حبس والی گرمی میں لاہور ایک مقام پر برقعے میں دو خواتین کو دیکھا جو گرمی کے باوجود پہنے ہوے تھی
۔اب اسنے خود سے سوال کیا "اس لڑکی کو سردی نہیں لگ رہی؟اسے فالج بھی ہوسکتا ہے،اگرمیں اسکی جگہ ہوتا تو شاید ٹھنڈ سےبیمار
ہو جاتا۔
ڈریسنگ اور اظہار ہر انسان کے اپنے وجود پہ منحصر ہوتا ہے۔یہ چیزیں کسی نظریہ کے محتاج نہیں ہوتی ہیں۔

Shakil_77
 

writer:Shakil Zafar
page:35
وہ چاۓ کا کپ پکڑ کے،سوتی کی چادر اپنےاوپر اوڑھ کے ونڈو گلاس کے پاس آیا۔اسے لوگوں کا بارش میں بھیگنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اسکے زندگی کا،اسکے سامنے یہ پہلا خوبصورت منظر تھا۔اسے خود بارش میں نہانا اچھا نہیں لگتا لیکن لوگوں کو بھیگتے دیکھ کے وہ بہت خوش تھا۔اور ساتھ ہی کانپنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا جیسے خود بھیگ رہا ہو۔کیا نظارہ تھا: مری کے مال روڈ کی سڑک،بارش،گلاس ونڈو کے پیچھے کیشین ہاتھ میں چاۓ کا کپ اوپر سے کانپنا!"بارش ختم ہوتے ہی اسکی چاۓ بھی ختم ہوتی اور وہ اب سنجیدہ موڈ میں کہتا ہے "کتنے بیوقوف ہیں یہاں کے لوگ جو اتنی ٹھنڈ میں بارش میں بھیگ رہے تھے۔یہ کہ کے وہ اپنے کمرے سے باہر آتاہے یہ کوئ شام کے چاربجے کا وقت تھا۔

Shakil_77
 

writer:محمد شکیل ظفر
page: 34
کیشین کومری آۓ ہوۓ تین ماہ گزگۓ اب سردیاں آچکی تھیں-اسے سردیاں پسند تھیں لیکن مری کی سردی اسکے علاقے کی سردی سے زیادہ شدید تھی۔وہ چاہے جسمانی طور پہ سخت تھا لیکن جاڑا برداشت کرنا اتنا آسان نہی تھا۔وہ شام کے وقت مال روڈ پی گھومتا ہے بلیک "آؤٹ فٹر" کی جیکٹ پہن کے،جسکےنیچے بھوری ٹی شرٹ اور نیلی لیوائز کی جینز تھی مست چل رہا تھا۔اچا نک سے بارش آتی ہے وہ جلدی سے اہنےکمرے میں چلا جاتاہے۔ لوگ بارش انجواۓ کرنے کے کے لیے گھر سے باہرآۓ اورکیشین اندر چلاگیا۔کیا کیشین کوبارش میں انجواۓکرنا پسند نہیں تھا؟ ہاں اسے پسند تھا۔لیکن اسکا انجواۓ طریقہ بہت الگ تھا۔

Writer shakil
S  : Writer shakil - 
Writer,,shakil
S  : Writer,,shakil - 
Shakil_77
 

writer:shakil
page:31
گلبرگ کے مشہور "انگلش ٹی ہاؤس" پہ آکر کیشین رکتا ہے وہاں کافی مہنگے لوگ آتے ہیں۔وہاں وہ اس لڑکی کو دیکھتا ہے جو ایک دفع بھیک مانگ رہی تھی اپنی گود میں بچہ لیے۔لیکن آج وہاں ایک پرسنیلٹی کے ساتھ "سکونز،پیسٹری" جیسی چیزیں کھا رہی تھی۔وہ شخصیت شہر کی نامور شخصیت تھی ،اسکی شادی بھی ہوئ ہوئ تھی۔کیشین اسکے پاس جا کر پوچھنا چاہتا تھا کہ اسکا اس سے تعلق کیا تھا، اور اچانک اتنے تھوڑے عرصے میں وہ اتنی تبدیل کیسے ہوگئ؟ "پوچھ کر کیا کروں گا،اسکے وجود،انتخاب نے یہ سب کچھ کیا اسکے لیے"
کیشین ہاسٹل آکر مری کے لیے سامان پیک کرتا ہے۔سامان کیا تھا محض کالا سیاہ بیگ تھا۔اسکو کندھے پہ لٹکاۓ اسلام آباد کی بس پکڑتا ہے ۔اسلام آباد آکر مری کی طرف روانہ ہوتا ہے۔

Shakil_77
 

page:30
ڈاک سے پھر آگے پیکو روڈ روانہ ہوتا ہے "کیتھڈرل سیکرڈ ہارٹ چرچ" آج وہ ماہنور سے آخری بار مل رہا تھا، اسکے بعد وہ مری جارہا تھا۔ ماہنور معیوب سمجھتی تھی کسی نامحرم سے بات کرنا۔ لیکن وہ کیشین سے اپنی عمر کے فرق کی وجہ سے بات کرلیتی تھی۔ماہنور چرچ سے باہر آتی ہے کیشین کی طرف مسکرا کے کہتی ہے آج غیرمعمولی پرکشش لگ رہے ہو۔کیشین کہتا ہے اسکا کوئ مطلب نہیں۔یہ کہ کر کیشین واپس لوٹنا شروع کرتا ہے۔پہلی دفع ماہنور اور کیشین میں ملاقات بغیر گفتگو ہوئ اور اس دفع کیشین نے ملاقات کا اختتام کیا۔کیشین لاہور چھوڑ کے جا رہا تھا،لیکن ماہنور کو بتاے بغیر۔شاید اس وجہ سے کہ کسی کو بغیر بتاۓ چھوڑنا ایک انتہائ دلچسپ اور سکون دہ چیز ہے۔ماہنور پلکیں نیچے کیے دانت ہونٹوں پہ دباۓ کھڑی تھی۔شاید اسے لگ رہا تھا کیشین بے چین وہ روک کے پوچھنا چاہتی تھی۔ رک گی،لیکن

Suspense Novels image
S  : Writer: Muhammad Shakil - 
Suspense Novels image
S  : Writer :Shakil -