story title:بے رحم معاشرہ اور وھود
page:16
چند ہفتوں بعد اسکی ملاقات پھر ماہنور سے ہوتی ہے۔لیکن ماہنور کی گفتگو کیشین کے ساتھ محدود تھی "سلام،شکریہ" تک۔ ایک دفع وہ ماہنور کاپیچھا کرتا پیکو روڈ کی چرچ پہ جا پہنچتا ہے وہاں چرچ کے لوگوں سے چھان بین کرتا بعد کیشین کو پتہ چلتا ہے کہ ماہنور ایک "نن" ہے۔عیسای مزہب میں نن ساری زندگی شادی کیے بغیر خدا کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ایک عورت اپنی جنسی خواہشات کو کیسے ہمیشہ کے لیے قربان کر سکتی ہی؟ وہ کیسے اپنی عمر کو شادی کے بغیر ضائع کرتی ہے؟لیکن شادی کو تو کیشین بھی پسند نہیں کرتا لیکن ایک نن پہ اسکا اتنا شک کیوں ۔"بلآخر اسے اس بات کے جواب خود سے مل جاتا ہے کہ دو انسان مختلف راے سے ایک ہی چیز پہ متفق ہو سکتے ہیں اگر چہ انکا بیانیہ مختلف ہو"


story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
writer:محمد شکیل
page:13
اترنے کے بعد کیشین اسکی فایل کو کھول کے اسکی فایل کے اندر سے ڈاکومنٹ کو تلاش کرتا ہے اور شناختی کارڈ سے ایڈریس کا پتہ چلتا ہے کہ یہ گلبرگ میں رہتی ہے۔ شناختی کارڈ پہ اسکی عمر چالیس برس تھی۔اسکا نام "ماہنورامجد تھا۔وہ شناختی کارڈ کے حساب سے عورت، جسمانی اور چہرے کے خدوخال سے لڑکی لگ رہی تھی۔جب کیشین اپنے سٹاپ سے اسکے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔لیکن خوش قسمتی سے وہ اسے اسی جگہ کھڑی نظر آتی ہے۔بےچین کسی کے انتظار میں شاید اپنی کھوی ہوی فایل کی منتظر تھی۔
story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
writer:محمد شکیل
page:12
کیشین اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا مسلسل۔لڑکی کا چھوٹا سا قد،سفید چہرہ،درمیانے سائز کے ہاتھ۔ وہ کوئ تیس یا پینتیس سال کی لڑکی لگ رہی تھی۔لڑکی کو کیشین کی اس نگاہ کا کوی علم نہیں تھا۔ ہر سٹاپ پہ لوگ آتے جاتے گے۔لڑکی قدافی اسٹیڈیم سٹاپ پہ اترتی ہے۔لیکن کیشین کہا اترتا؟ وہ صرف وقت گزارنے کے لیے بیٹھا تھا۔اسکا کوی ٹھکانا نہیں تھا۔لڑکی اپنی فایل بس میں بھول جاتی ہے۔کیشین اسے آواز دیتا ہے لیکن وہ سن نہیں پای۔میٹروبس میں باقی لوگ اسکی اس آواز پہ کوی مطلب نہیں رکھتے۔کیشین اسکی فایل اٹھا لیتا ہے اور اگلے سٹییشن پہ بس کے رکنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ اتر کر اسکے ڈاکومنٹ واپس کرے۔اگلا سٹاپ آچکا تھا کیشین اترتا ہے
Story title:بے رہم معاشرہ اور وجود
writer:محمدشکیل
page:11
کیشین اپنا کالاسامان والا بیگ اتار کر ماڈل ٹاون میٹرو سٹیشن پہ پہنچتا ہے۔ وہاں سے ٹوکن لے کر سیڑھیاں اترتا ہے پھر اس سٹینڈ پر پہنچتا ہے جہاں ٹوکن سکین کیا جاتا ہے اور آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔وہ ان سب چیزوں سے ناواقف تھا۔پاس میں کھڑی لڑکی اسکی طرف دیکھ کر ٹوکن مانگتی اور سکین کرواتی ہے۔کیشین شکریہ کے الفاظ زبان پہ لاکر بس میں روانہ ہوتا ہے لڑکی بھی اسی سٹیشن سےاسکے ساتھ بیٹھتی ہے ۔بس میں بہت بھیڑ تھی صرف ہاتھ کی طاقت سے کھڑا رہنے کی سہولت تھی۔وہ لڑکی بھی اپنے خواتین والے پورشن میں کھڑی تھی۔


story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
writer:محمد شکیل
page:8
خدا حافظ امی ابو!
کیشین یہ کہ کر گھر سے لاہور کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔کیشین نے گھر والوں کی اجازت کے بغیر لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔البتہ جاتے وقت سب سےمل کر جاتا ہے۔"کیا میں گھر سے باہر گھر کو یاد کروں گا،جہاں میرا چھوٹا سا کمرہ جسکی صفای بھی پچھلے چار ہفتوں سے نہیں ہوئ۔ میری روزانہ کی سرگرمیاں؟ کیا یہ چیزیں مجھے گھر سے دور رکھ پایں گی؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب تھا اسکے پاس: "ہر پرانی چیز کو ختم نہں کیاجاتابلکہ اسے دوسری کےساتھ تبدیل کیا جاتا ہے۔پھر پرانی چیز اپنا وقارخودکھو جاتی ہے پھر ایک وقت آتا ہےکھی ہوئ چیز کا انسان کو یاد بھی نہیں رہتاکہ وہ بھی کبھی تھی
!
story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
page:7
writer:محمد سکیل
کیشین بیٹا، دنیا میں رہنے کے لیے انکے رنگ میں ڈھلنا پڑتا ہے خود کو بدلنا پڑتا ہے اور تب جا کر انسان معیوب نہیں لگتا۔ماں بیٹے کے پاس جاکر سر پہ ہاتھ پھیرتی ہے۔کیشین باپ سے طنزیہ لہجے مہیں کہتا ہے، آج آپ کی سگریٹ کا دھواں کافی میٹھا ہے۔
ماں،آپ بھی کیا چیز ہو آپکی محبت بالکل باقی ماوں کی طرح ہے جوبغیر منطق کے وجود رکھتی ہے۔اگر آپکا بیٹا کسی کا نقصان کرے تو اسکے بدلے میں آپکےبیٹے کی طلبی ہو تو کیا کریں گی آپ؟ کیسا سوال ہے، کیشین بیٹا!


story title:بےرحم معاشرہ اور وجود
page:4
writer:محمدشکیل
لاہور جانے کا فایدہ یہ بھی ہوگا گھر سے ملی ہوی تسلسل والی بوریت ختم ہو جاےگی اور کچھ نیا سیکھنے کوبھی ملے گا۔کیاوہاں کےماڈرن لوگوں کے ساتھ میں فٹ ہو سکوں گا؟ کیونکہ میں صرف کلاسیکل چیزوں کی حدتک لوگوں کو اپنے محور کے گرد رکھ سکتا لیکن میں جدید چیزوں سے ناواقف ہوں۔کرنا تو ہوگا کب تک گھر والوں پہ منحصر رہوں گا۔کم از کم خود کا بوجھ تو اٹھانا چاہیے۔لیکن کیا میں صرف ان چیزوں کے لیے بنایا گیا ہوں؟ کیا صرف آزمایش ہی زندگی میں سب کچھ ہے؟کیا اگر بالفرض میں یہ سب کچھ کرنے سے انکار کر دوں تو؟

story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
page:2
writer:محمد شکیل
باہر آکر دیکھتا ہے اسکی کلاس کا طالب علم ثقلین آنکھیں نم کیےکھڑا تھا ۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ ہمارا پسندیدہ استاد یہ سکول چھوڑکر جارہا ہے۔کیشین اپناا ہاتھ اسکے گال پہ لگا کر کر چل دیتا ہے۔پیچھے سے آواز آتی ہے جناب آپکو اکاونٹ آفس میں طلب کیا گیا ہے۔ کیشین اکاونٹ آفس پہنچتا ہے وہاں سے مہینے کی پوری تنخواہ ملتی ہے حالانکہ اسکے مہینے میں میں سات دن کم تھے۔لیکن وہ دریافت نہیں کرتا شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکی دریافت پہ اس سے ایک ہفتے کی تنخواہ کاٹ لی جاے۔وہ بےچین بھی تھا کہ اتنا خوبصورت سکول چھوڑ رہا ہے اور خوش بھی کہ اسکے پاس تنخواہ آگی ہے۔

Freewill is only essence of Existence.
Muhammad Shakil Zafar

I would rather love to read Fyodor dostevosky and Leo Tolstoy than Nimra and umera Ahmed.
He is 24 years old: Financially collapsed,Broken Dream, Mentally Retarded,Passing through Anguish,Failed in chasing tasks.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain