writer:Muhammad Shakil
page:27
ستمبر کی حبس والی گرمی میں دو لڑکیاں سیاہ برقعے میں ملبوس چل رہیں تھی۔انکے ہاتھوں پہ دستانے،پاوں میں جوتے۔انکے چہرےبلکل ڈھنپے ہوۓ تھے۔بمشکل برقعے کی جالی سے دیکھ سکتی تھیں۔کیا ان لڑکیوں کو گرمی نہیں لگتی،اتنے بھاری برقعے میں،یہ بے ہوش کیوں نہیں ہوتی؟ اگر میں انکی جگہ ہوتا تو شاید گرمی کے مارے گر پڑتا۔یہ سوال کھڑے کیے وہ بیوریج کی دکان پہ پہنچ کر ایک عدد سٹنگ کی بوتل کو بغیر سانس لیے پی جاتا ہے۔گرمی بے جان کر دینے والی تھی۔دکاندار اسے پینے کے لیے کرسی دیتا ہے لیکن کیشین ہاتھ سے روک کر یہ کہتا ہے"ہر سوال ایک جواب طلب کرنے کے لیے پیدا ہوتا ہے اس سوال کو مارنے کی بجاۓ جواب سے زندہ رکھنا چاہیے ،سوالوں کی زندگی بھی اتنی اہمیت والی ہوتی یے جتنی انسانوں کی۔شاید وہ برقعے والے سوال کے جواب کامتلاشی تھا۔
Story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
page:26
کیشین ہوٹل سے سیدھا اپنی نوکری پہ جاتا ہے۔وہ رات کو کام کرنے کا عادی نہ تھا، وقت اور حالات اسے اہنی نیند قربان کرنے پہ مجبور کر گۓ۔رات کے کام کرنے کی وجہ سے اسکی آنکھیں سیاہ مائل نظر آرہی تھیں وہ اپنی اس بیکار کام کاج میں مطلب تلاش کر رہا تھا لیکن فضول تھا۔اسکی ڈیوٹی فجر وقت ختم ہوتی پھر وہ ناشتہ کرنےجاتا۔سوتا کب تھا؟ّ ذہنی پریشان آدمی سو کیسے سکتا ہے؟ وہ کیسے برداشت کرسکتا ہے اپنے ٹوٹےہوۓ خواب،معاشرے سے الگ شخصیت،غربت،اور باغی پن اسکو مجبور کر رہی تھیں کہ وہ چین سے رہ نہ سکے۔"کیا یہ مطلب رکھتا ہے کہ زندگی میں سکون ہو یا بے چینی۔کم از کم میں زندگی تو گزار رہاہوں"
writer: Muhammad shakil
page: 23
سفید کپڑوں اور سکارف میں زیب تن ماہنور۔اسے صبر تحمل سے بتاتی ہےکہ اسکی زندگی بےمعنی نہیں ہے بلکہ اسکی ناکام محبت خداکی آزمائش تھی۔پہلے اسنے اپنی ماضی کی زندگی کے سال سلمان کو دیے۔اسکے ساتھ نہ رہ کر اسکی یادوں کے سہارے گزارے۔لیکن اب وہ خدا کےلیے خودکو وقف کر چکی ہے۔وہ اپنی زندگی سے بہت خوش ہے وہ بتاتی ہی کیسے بچوں کی تعلیم اور چرچ کے کاموں میں اسکاوقت گزرتاہے۔کاش ایسی زندگی اسےپہلےمل جاتی! کیشین پھیکے تاثرات دیتا ہے جیسے دس سال کا بچہ کھٹا آم کھا رہا ہو۔ماہنور کھلے لحجے میں بتاتی ہے "آپ نے میری زندگی کے پہلےدورانیہ کو ناکام دیکھ کے بے معنی کہ دیا، لیکن دوسرے دورانیہ کو دیکھ کر بامعنی زندگی کو نہیں ڈھونڈ پاۓ!
writer:Shakil
page: 22
ماہنور کی کہانی سننے کے بعد اسے اپنی زندگی کا تجزیہ دیتا ہے کہ جتنا مرضی انسان کوشش کرلے،جتنی مرضی آزمائش کا سامنا کرلے۔اسے عارضی خوشی تو مل سکتی ہے لیکن آزمائشیں اسکی روح کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔اسے بلآخر پریشانیاں اور دکھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آپ نے اپنی زندگی کے اتنے سال قربان کیۓ آپکوکیا ملا ؟ صرف بےمعنی نتائج یہی حقیقت ہے۔
writer:Muhammad Shakil
page:19
لیکن لڑکی کے پاس ایک چوائس ہے یہ اپنا جسم کی نمائش کراکے ماڈرن انٹرنیٹ پہ لگا کے پیسہ اور شہرت کماسکتی ہے۔اور وہ لنگڑا آدمی وہیل کرسی پہ بیٹھ کے دو چار مزہبی کتابیں پڑھ کے نوجوانوں کو غلط مزہبی(غیر تصدیق شدہ) چیزیں بتاکر اپنی زندگی اچھی پیسے اور عزت سے کما سکتا ہے لیکن یہ لوگ ایسا کیوں نہیں کر رہے؟ شاید لڑکی بھیک کو جسم کی نمائش سے بہتر سمجھتی ہے اور لنگڑا آدمی اپنی بوجھل ٹانگ کو مزہبی فساد سے بہتر سمجھتا ہے! یہ مجھ سے بہتر ہی کیونکہ انکا جسمانی کونفیڈینس بتا رہا ہے یہ زندگی سے مطمئن ہیں۔میں جسکے اوپرکوئ گھریلوبوجھ نہیں،خدا کا دیا ہوا مضبوط و توانا جسم ہے پھر بھی کہیں نہ کہیں شکوہ ہے کچھ کم ہونے کا یا کچھ کھونے کا۔کیا یہ نا شکری نہیں؟
writer:محمد شکیل
Page 18
ماہنور کے جانے کے بعد کیشین بھی چل دیتا ہے۔وہ زندگی کو فضول،بےمعنی تصور کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے اس زندگی کو کسی مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ زندگی صرف آزمائشوں،دکھوں،تکلیفوں اوربے اضطرای کا نام ہے۔ہم جوکچھ بھی کرتے ہیں وہ بےمعنی ہوتا ہے حقیقت یہی ہے۔ایسا کچھ سوچنے کے بعد وہ ایک لنگڑے آدمی کو سڑک پارکرتےدیکھتا ہے۔ایک 23 سال کی لڑکی کو بھیک مانگتے دیکھتا ہے۔اس سے دریافت کرنے پے کیشین کو علم ہوتا ہے شادی کے بعد اسکے شوہر نے اسکی پڑھائ چھڑوا کر اسے گھر کے لیے رکھ لیا۔لیکن شوہرکی وفات کے بعد اسکا گھر چلانے والا کوی نہیں تھا اب وہ بھیک کے سہارے تھی۔اگر لڑکی تعلیم حاصل کرتی یا کوئ مہارت سیکھتی تو یہ حالت نہ ہوتی؟ام۔۔۔۔۔میرے پاس تو تعلیم ہے لیکن میری ایسی حالت کیوں ہے؟
story title:بے رحم معاشرہ اور وھود
page:16
چند ہفتوں بعد اسکی ملاقات پھر ماہنور سے ہوتی ہے۔لیکن ماہنور کی گفتگو کیشین کے ساتھ محدود تھی "سلام،شکریہ" تک۔ ایک دفع وہ ماہنور کاپیچھا کرتا پیکو روڈ کی چرچ پہ جا پہنچتا ہے وہاں چرچ کے لوگوں سے چھان بین کرتا بعد کیشین کو پتہ چلتا ہے کہ ماہنور ایک "نن" ہے۔عیسای مزہب میں نن ساری زندگی شادی کیے بغیر خدا کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ایک عورت اپنی جنسی خواہشات کو کیسے ہمیشہ کے لیے قربان کر سکتی ہی؟ وہ کیسے اپنی عمر کو شادی کے بغیر ضائع کرتی ہے؟لیکن شادی کو تو کیشین بھی پسند نہیں کرتا لیکن ایک نن پہ اسکا اتنا شک کیوں ۔"بلآخر اسے اس بات کے جواب خود سے مل جاتا ہے کہ دو انسان مختلف راے سے ایک ہی چیز پہ متفق ہو سکتے ہیں اگر چہ انکا بیانیہ مختلف ہو"
story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
writer:محمد شکیل
page:13
اترنے کے بعد کیشین اسکی فایل کو کھول کے اسکی فایل کے اندر سے ڈاکومنٹ کو تلاش کرتا ہے اور شناختی کارڈ سے ایڈریس کا پتہ چلتا ہے کہ یہ گلبرگ میں رہتی ہے۔ شناختی کارڈ پہ اسکی عمر چالیس برس تھی۔اسکا نام "ماہنورامجد تھا۔وہ شناختی کارڈ کے حساب سے عورت، جسمانی اور چہرے کے خدوخال سے لڑکی لگ رہی تھی۔جب کیشین اپنے سٹاپ سے اسکے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔لیکن خوش قسمتی سے وہ اسے اسی جگہ کھڑی نظر آتی ہے۔بےچین کسی کے انتظار میں شاید اپنی کھوی ہوی فایل کی منتظر تھی۔
story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
writer:محمد شکیل
page:12
کیشین اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا مسلسل۔لڑکی کا چھوٹا سا قد،سفید چہرہ،درمیانے سائز کے ہاتھ۔ وہ کوئ تیس یا پینتیس سال کی لڑکی لگ رہی تھی۔لڑکی کو کیشین کی اس نگاہ کا کوی علم نہیں تھا۔ ہر سٹاپ پہ لوگ آتے جاتے گے۔لڑکی قدافی اسٹیڈیم سٹاپ پہ اترتی ہے۔لیکن کیشین کہا اترتا؟ وہ صرف وقت گزارنے کے لیے بیٹھا تھا۔اسکا کوی ٹھکانا نہیں تھا۔لڑکی اپنی فایل بس میں بھول جاتی ہے۔کیشین اسے آواز دیتا ہے لیکن وہ سن نہیں پای۔میٹروبس میں باقی لوگ اسکی اس آواز پہ کوی مطلب نہیں رکھتے۔کیشین اسکی فایل اٹھا لیتا ہے اور اگلے سٹییشن پہ بس کے رکنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ اتر کر اسکے ڈاکومنٹ واپس کرے۔اگلا سٹاپ آچکا تھا کیشین اترتا ہے
Story title:بے رہم معاشرہ اور وجود
writer:محمدشکیل
page:11
کیشین اپنا کالاسامان والا بیگ اتار کر ماڈل ٹاون میٹرو سٹیشن پہ پہنچتا ہے۔ وہاں سے ٹوکن لے کر سیڑھیاں اترتا ہے پھر اس سٹینڈ پر پہنچتا ہے جہاں ٹوکن سکین کیا جاتا ہے اور آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔وہ ان سب چیزوں سے ناواقف تھا۔پاس میں کھڑی لڑکی اسکی طرف دیکھ کر ٹوکن مانگتی اور سکین کرواتی ہے۔کیشین شکریہ کے الفاظ زبان پہ لاکر بس میں روانہ ہوتا ہے لڑکی بھی اسی سٹیشن سےاسکے ساتھ بیٹھتی ہے ۔بس میں بہت بھیڑ تھی صرف ہاتھ کی طاقت سے کھڑا رہنے کی سہولت تھی۔وہ لڑکی بھی اپنے خواتین والے پورشن میں کھڑی تھی۔
story title:بے رحم معاشرہ اور وجود
writer:محمد شکیل
page:8
خدا حافظ امی ابو!
کیشین یہ کہ کر گھر سے لاہور کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔کیشین نے گھر والوں کی اجازت کے بغیر لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔البتہ جاتے وقت سب سےمل کر جاتا ہے۔"کیا میں گھر سے باہر گھر کو یاد کروں گا،جہاں میرا چھوٹا سا کمرہ جسکی صفای بھی پچھلے چار ہفتوں سے نہیں ہوئ۔ میری روزانہ کی سرگرمیاں؟ کیا یہ چیزیں مجھے گھر سے دور رکھ پایں گی؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب تھا اسکے پاس: "ہر پرانی چیز کو ختم نہں کیاجاتابلکہ اسے دوسری کےساتھ تبدیل کیا جاتا ہے۔پھر پرانی چیز اپنا وقارخودکھو جاتی ہے پھر ایک وقت آتا ہےکھی ہوئ چیز کا انسان کو یاد بھی نہیں رہتاکہ وہ بھی کبھی تھی
!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain