ساری عُمر گُزر گئی
کبھی مُروّت ،،، کبھی محبّت
کبھی یہاں ،،، تو کبھی وہاں
محبتوں کے سِکّے لُٹائے چلے گئے
جِس کا بھی درد مِلا اُٹھائے چلے گئے...
جِس نے پلٹ کر بھی نہیں پوچھا... اُس سے بھی تعلق نبھائے چلے گئے
اُس رستہ پہ چلتے چلتے
یونہی زرا سی شوق ہوئی تھی
دیکھوں تو ساری عُمر لُٹا کر
میرے حِصّے کیا آیا ہے ___؟؟میرے حِصّے میں بھی
کیا کوئی ایک شخص بھی آیا ہے...؟؟
خود کو پائی پائی کر کے
کیا کوئی ایک شخص کمایا ہے...؟؟
اُس رستہ پہ چلتے چلتے
یونہی زرا سی شوق ہوئی تھی
دیکھوں تو ساری عُمر لُٹا کر
میرے حِصّے کیا آیا ہے_؟میرے حِصّے میں بھی
کیا کوئی ایک شخص بھی آیا ہے.؟
خود کو پائی پائی کر کے
کیا کوئی ایک شخص کمایا ہے.؟
خالی ہاتھوں کے حِصّے میں
خالی ہاتھ ہی آیا ہے؟
ایک گہری خاموشی تھی
دل سے صِرف ایک صدا آئی
جِس کے حِصّے میں کُچھ نہیں ہوتا
اُس کے حِّصے میں رب آیا ہے. اور جسے رب مل جائے اسے توو
کسی کے ساتھ کی چاہ نہیں رہتی ناا پھر
یہ جو رب ہے ناں.وُہی سب ہے ناں جہاں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے.وہ وہیں سے پِهر زندگی شروع کر دیتا ھے
جانے کے بعد اپنی نشانی کو کھا گیا
کیسا عجیب شخص تھا پانی کو کھا گیا
یہ شک حقیقتوں میں محبت کی موت ہے
دیمک لگا تو لکڑی پرانی کو کھا گیا
ورنہ ہم ایک اور ہی لہجے کا شعر تھے
ظالم سماج مصرعئہِ ثانی کو کھا گیا
اک بیل کھا گئی کسی سر سبز پیڑ کو
کردار ایک پوری کہانی کو کھا گیا
یہ شخص تیز تیز جو چلتا ہے وقت سے
دریا کی تیس سالہ روانی کو کھا گیا
کوئی خیال پھر مِری سگریٹ کو پی گیا
کوئی خیال شام سہانی کو کھا گیا
فکرِ معاش تھا یا محبت کسی کی تھی
کوئی تو ہے جو میری جوانی کو کھا گیا
پہلے مجھے بتاتا رہا زندگی ہے کیا
پھر میری زندگی کے معانی کو کھا گیا
اک بھیڑیا قریب جو رہتا تھا تاڑ میں
آخر، غریب باپ کی رانی کو کھا گیا
ایک مدت کی ریاضت سے کمائے ہوئے لوگ
کیسے بچھڑے ہیں مرے دل میں سمائے ہوئے لوگ
تلخ گوئی سے ہماری تُو پریشان نہ ہو.
ہم ہیں دنیا کے مصائب کے ستائے ہوئے لوگ
تجھ کو اے شخص کبھی زیست کی تنہائی میں
یاد آئیں گے ہم عجلت میں گنوائے ہوئے لوگ 🖤
عجیب دکھ ہے ہواؤں کے تازیانوں میں
چراغ بجھنے لگے شہر کے مکانوں میں
مری صداؤں پہ پہرہ لگانے والے سن
مرا سکوت بھی چیخے گا تیرے کانوں میں
کرے گا کون محبت پہ گفتگو ان سے
ہیں زہر ذائقے احباب کی زبانوں میں
افق پہ میری اداسی کے رنگ پھیلتے دیکھ
بکھر گئے ہیں مرے زخم آسمانوں میں
تمام شہر جسے آنکھ میں لیے ہوئے ہے
وہ شخص بھی تھا کبھی میرے میزبانوں میں
کٹے پروں سے اڑی ہوں تو انگلیاں نہ اٹھا
تمہارا ہاتھ نہیں ہے مری اڑانوں میں
کسی میں کیسے کھلے میری شاعری کا فسوں
مری غزل ہے مری ذات کے جہانوں میں
مرے وجود سے انکار کرنے والے شخص
میں مانگتی رہی ہو تجھ کو آستانوں میں
شاہوں کی طرح تھے نہ امیروں کی طرح تھے۔۔۔!!
ہم شہر محبت میں فقیروں کی طرح تھے..!!
دریاؤں میں ہوتے تھے جزیروں کی طرح ہم۔۔!!
صحراؤں میں پانی کے ذخیروں کی طرح تھے۔۔!!
افسوس کے سمجھا نہ ہمیں اہلِ نظر نے۔۔!!
ہم وقت کی زنبیل میں ہیروں کی طرح تھے۔۔!!
غم طوق گلو پاؤں میں زنجیر انا کی ۔!!
آزاد بھی تھے ہم تو اسیروں کی طرح تھے۔۔!!
اب رہ گئے ہم صرف روایات کی صورت۔۔!!
جب تھے تو ہم رنگ نظیروں کی طرح تھے۔۔!!
حیرت ہے کہ وہ لوگ بھی اب چھوڑ چلے ہیں۔۔!!
جو میری ہتھیلی میں لکیروں کی طرح تھے۔۔!!
سوچی نہ بری سوچ کبھی اُن کے لیۓ بھی۔۔!!
پیوست میرے دل میں جو تیروں کی طرح تھے۔۔!
💦
اس دنیا کی سب سے خطرناک ایجاد عارضی تعلقات ہیں۔
لوگ اچانک سے زندگیوں میں کیوں آکر اہمیت دیتے ہیں اور پھر جھٹ سے لاپرواہی برتنے لگتے ہیں۔ تنہا انسان کی تنہائی میں خلل ڈال کر اسے دوبارہ تنہا کر دینا بہت اذیت ناک ہے ...Shani ji...