ہم نہیں چاہتے تمھارے ساتھ کسی اور کا تعلق ہو........
تمھیں نفرت بھی کرنی ہو تو وہ بھی فقط ہم سے ہی کرنا...
آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیئے
یُوں بَن سَنور کے سامنے آیا نہ کیجیئے
یاسَر پہ آدمی کو بیٹھایا نہ کیجیئے
یاپھر نظر سے اُس کو گرایا نہ کیجیئے
یُوں مَدھ بھری نگاہ اُٹھایا نہ کیجیئے
پینا حرام ھے تو پلایا نہ کیجیئے
وہ کچھ سنتا تو میں کہتا، مجھے کچھ اور کہنا تھا،
وہ پل بھر کو جو رک جاتا، مجھے کچھ اور کہنا تھا !
غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ،
کہا کچھ تھا، وہ کچھ سمجھا، مجھے کچھ اور کہنا تھا
اے " عشق " ادھر آ تجھے " عشق "سکھاؤں
در یار میں بیٹھ کر تجھے " بیعت " کراؤں
تھک جاتے ہیں لوگ اکثر تیری عین پر آ کر
عین شین سے اگے تیرے " قل "میں سماؤں
اے عشق تیری عاشق ھوں آ سنگ تو میرے
سینے سے لگا کر تجھے سر مست بناؤں
تو جھوم اٹھے دیکھ کے " دیوانگی " میری
آ وجد کی حالت میں تجھے رقص سکھاوں.
نبھانا نہیں ہوتا تو رشتے بناؤ ہی مت آپ کے ٹائم
پاس کے چکر میں کوئی اندر تک ٹوٹ جاتا
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میںکچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیںاس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیںکاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
تیرے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے
احمد فراز
عشق کرنا ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔ چاک گریباں کر لے
ہوش والوں سے کہاں رقص ے جنوں ہوتا ہے
وہ جو تقدیر میں نہیں ہوتے #
ان کی آرزو کو عشق کہتے ہیں
راز فاش نہ کرو تو ایک بات کہوں🥀
*ہم رفتہ رفتہ تیرے بن مر جائیں گے
As
کیا خبر کل تُجھے بھی ہو جائے
عشق والوں کی خیر مانگا کر
As
تیری یاد کا احترام ہے ورنہ__کسی روز،___!!
روک ہی دوں اس دھک دھک _ کے تماشے کو
As
یہ میرا سامان رکھا ہے کمرے میں
غالب کا دیوان رکھا ہے کمرے میں
ایک قلم ہے اور سیاہی چند کتابیں
یعنی کل جہان رکھا ہے کمرے میں
یہ جو بندہ بال بکھیرے بیٹھا ہے
عشق! ترا احسان رکھا ہے کمرے میں
نیند بھی ٹوٹی ساتھ میں ٹوٹے سپنے بھی
آنکھوں کا نقصان رکھا ہے کمرے میں
آدھی رات کو پوچھ رہی ہے تنہائی
کیا کوئی مہمان رکھا ہے کمرے میں؟
دیکھ لو آ کے تم بھی شہرِ فغاں
غم کے مارے یہیں پہ رہتے ہیں
تم جہاں سے گزر کے جاتے ہو
سب نظارے وہیں پہ رہتےہیں
وہ کہ جو ذندگی کا حاصل تھے
کیا خبر کس ذمیں پہ رہتے ہیں
جن کو دولتِ یقیں میسّر تھی
اب وہ شک کی زمیں پہ رہتے ہیں
آسماں پر ہے__ روشنی کیسی
جب ستارے ذمیں پہ رہتے ہیں
عقل والے کہاں رکھتے ہیں اتنا ذوق جنوں
یہ تو عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain