پرسکون زندگی کا راز
محدود تعلقات ، محدود توقعات اور محدود خواہشات
بزمِ امکاں میں نہیں.... کوئی تصور تجھ بن
تُو میرا عشق ہے، یہ بات گِرہ باندھ کے رکھ
کبھی جن رشتوں کی خاطر آپ نے اپنی انا تک واری ہوتی ہے تاکہ وہ مضبوط ہوسکیں کیونکہ آپ انکو کھونا نہیں چاہتے پر یقین کریں ایک وقت ایسا آتا ہے وہی لوگ وہی رشتے آپکو سے وار کے پھینک دیتے ہیں
داد بنتی ہے بڑا کام کیا ہے ہم نے............................
دستبردار ہوۓ، مڑ کے نہ دیکھا اس کو............
یار ! ہم لــــوگ ہیں ہاری ہوئــــی مَنت کے چــــراغ
جو کہ محــــراب میں کونــــے پہ دھرے رہتے ہیــــں_
پھول بھی پسند ہے مگر _ جب میں آؤں تو
میرے لیے میز پر تم _ چاۓ بھی رکھنا
بس محبت میں یہی ایک خسارہ ہے مجھے
تو نے غیروں کی طرح دل سے اتارا ہے مجھے 🥺
کرب، جس لفظ کا مفہوم تھا پوچھا تو نے
تو نے اس لفظ سے ہر روز گزارا ہے مجھے🥺
اس پیار کا قِصہ ،،،،،،،،کیا لکھنا،،،،،،
اک بیٹھک تھی،،،،،برخاست ہوئی،،،،،،،
جب بیٹیاں بڑی ھو جائیں تو شک کی دیوار اونچی کرنے کی بجائے محبت کی رسی کو دراز کر لینا بہتر ہے
کیونکہ محبت کی لگام تربیت پر آنچ نہیں آنے دیتی۔۔
😊
رہے گی یاد ھمیں اس کی خوش مزاجی بھی
ملا وہ جب بھی ھمیں خوش فہمیوں میں ڈال گیا۔
خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہلِ مہر و محبت ہیں دل نکال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
ذرا سی دیر کا ہے یہ عروج مال و منال
ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ
یہ بار بار کنارے پہ کس کو دیکھتا ہے
بھنور کے بیچ کوئی حوصلہ اچھال کے رکھ
جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی
پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
نہ جانے کب تجھے جنگل میں رات پڑ جائے
خود اپنی آگ سے شعلہ کوئی اجال کے رکھ
چھلک رہا ہے جو کشکول آرزو اس میں
کسی فقیر کے قدموں کی خاک ڈال کے رکھ
تری بلا سے گروہِ جنُوں پہ کیا گزری
تو اپنا دفترِ سود و زیاں سنبھال کے رکھ..
✍️افتخار عارف🥀
انکھوں میی لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ
دردِ سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے
اٹھے ہیں اس کی بزم سے امجد ہزار بار
ہم ترکِ آرزو کا ارادہ کیے ہوئے
ھم درد کی انتہاؤں پہ رھنے والے
قرار میسر ھوا .. تو مر جائیں گے
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
وا قفس میں کوئی در خود مرا صیاد کرے
سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے
جب لہو بول پڑے اس کے گواہوں کے خلاف
قاضئ شہر کچھ اس باب میں ارشاد کرے
سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے
پروین شاکر🍂🍁
کچھ لوگ اتنے اسلامی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے لئے جوتوں کا انتخاب بھی مسجد سے کرتے ہیں
😂
وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے
متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے
دو چار باتیں وہ لوگ بھی سُنا کر گئے ہم کو
جن کی قمیضوں پر اپنا گریبان تھا ہی نہیں
اتنے پارساٶں میں پھر دم نہ گُھٹتا تو کیا ہوتا
جو بھی ملا فرشتہ ہی ملا انسان تھا ہی نہیں
وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو نہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا,
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا.
زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرارہا ہے,
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا ، مجھے بتاتا.
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ,
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے بلاتا ، مجھے بتاتا.
مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں,
میں اس کی راہ میں اپنے دل کا دیا جلاتا ، مجھے بتاتا.
منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی سے,
میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا.
آ میرے ہاتھ پہ رکھ اپنی توجہ بھرے ہاتھ
اور غلط کردے بچھڑ جانے کی افواہوں کو🖤
🌹
آ بیٹھ میرے سامنے ، کوئی آیت دم کروں تجھ پہ ،
کہ تو میرے سوا کسی کی نگاہ کا طلبگار نہ رہے 🖤
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain