مجھ سے اونچا ترا قد ہے،حد ہے پھر بھی سینے میں حسد ہے،حد ہے میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں تیرا نقطہ بھی سند ہے،حد ہے تیری ہر بات ہے سر انکھوں پر میری ہر بات ہی رد ہے،حد ہے عشق میری ہی تمنا تو نہیں تیری نیت بھی تو بد ہے،حد ہے بے تحاشا ہیں ستارے لیکن چاند بس ایک عدد ہے،حد ہے اشک انکھوں سے یہ کہہ کر نکلا یہ ترے ضبط کی حد ہے،حد ہے کوئی اتا ہے نہ جاتا ہے یہاں گھر کے جیسی ہی لحد ہے،حد ہے شاعری پر ہے وہ اب تک غالب نام میں جس کے اسد ہے،حد ہے روکتے کیوں نہیں اس کو جاذل یہ جو سانسوں کی رسد ہے،حد ہے
نا رکھنا خاص تم ہم کو، بھلے ہی عام رکھ لینا مگر محفل میں تم اپنی، ___ہمارا نام رکھ لینا تمھارے نام سے پہلے______ ہمارا نام آئے تو ہمارے نام کو بے شک____ برائے نام رکھ لینا گوارا گر نہ ہو تم کو__ ہمیں احباب میں رکھنا تمھیں یہ بھی اجازت ہے، ہمیں گمنام رکھ لینا
اس نے چھوڑا ہے کچھ ایسے کہ کمی رہتی ہے اس لیے روز یہ آنکھوں میں نمی رہتی ہے ً دھوپ کی ساری تمازت کا اثر کوئی نہیں دل کے موسم میں فقط برف جمی رہتی ہے منزلوں پے ہے نئی راہ نیا اذن سفر ہر کسی سانس پے ہجرت کی ٹھنی رہتی ہے روز کھا لیتا ہوں لوگوں سے نیا کوئی فریب روز لوگوں سے ہی امید بنی رہتی ہے دھوپ میں دیتی ہے سایہ مجھے ممتا کی دعا ایک چادر سی مرے سر پے تنی رہتی ہے شاعر سید عقیل شاہ...