زندگی تجھ کو اگر وجد میں لاؤں واپس چاک پہ کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی تجھ کو ناراض کروں، روز مناؤں واپس وہ میرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے اپنے ماضی کی طرف، بھاگتا جاؤں واپس یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت تو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس تھا تیرا حکم، سو جنت سے زمیں پر آیا ہو گیا ختم تماشہ، تو میں جاؤں واپس؟
آنکھوں کو دیے خواب تو تعبیر بھی دے گا سکھلائی دعا جس نے وہ تاثیر بھی دے گا جس نے تجھے بھیجا ہے مرے خانہءدل میں وہ حق میں مرے نامہ ء تقدیر بھی دے گا صائمہ کامران
محبت ختم ہے لیکن ابھی رشتہ نہیں ٹوٹا کہ جتنا ٹوٹنا تھا دل ابھی اتنا نہیں ٹوٹا۔ ہماری روح کو مہمان بن کے کھا گئی دیمک ہمیں حیرانی ہے اس پر کہ یہ ڈھانچہ نہیں ٹوٹا۔ 🌹کھلونا تھا مگر تم نے مجھے مجھے دل سے لگایا تھا تمہاری اس مروت سے مرا کیا کیا نہیں ٹوٹا۔ 🌹 عبادت آج جیسی پھر کبھی اب ہو نی پائے گی گرا جو شاد سجدے میں تو پھر سجدہ نہیں ٹوٹا۔
✍️نبی کریم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ اس پر ایک آدمی نے عرض کیا گیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو ۔ آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ جمیل ہے اور جمال ( خوبصورتی) ہی کو پسند فرماتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑ نے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں ۔۔۔❤️🥀
اسی کو پیش مسائل ہیں بے زبانی کے مجھے بتاتا تھا کلیے جو ترجمانی کے وہ رونے والا مرے سامنے تو ہنستا تھا بہت سے رنگ ہیں دنیا میں مہربانی کے اِدھر صغیر تھا پیاسا یہ مطمئن تھا اُدھر یقین مانو بڑے حوصلے ہیں پانی کے مرے خیال میں بنتا تھا ڈوبنا اس کا کنارے ڈھونڈ رہا تھا جو بیکرانی کے یہ تجربات کتابوں میں تھوڑی لکھے تھے بہت سے سال لگے سال بھی جوانی کے عجیب ہے ناں مصنف تھی اُسکی میں زہرا بدل رہا تھا وہ کردار جس کہانی کے
وہ اگر چاہتا ہے مجھےتو اک کام کرے اپنی چاہت کو مرے سنگ ہر گام کرے اشاروں سے کنایوں سے نہیں ملتی ہے منزلیں وہ میری آنکھوں میں آنکھوں سے پیغام کرے تانک جھانک سے کب ہوتے ہیں محبت کے سودے وہ آ کے دو زانوں ہو کے مجھے سلام کرے رسمیں تو ورثہ ہیں میری ثقافت کا اس پہ فرض ہے رواجوں کا اہتمام کرے
ہے سفر عجیب ، حیاتی دا کِسے دُکھ دِتّا ، کِسے گل لایا کئی مُخلص ہن ، کئی دُشمن ہن کِسے ویچ دِتّا ، کِسے مُل پایا کِسے خیال رکھیا ، کِسے ضائع کیتا کِسے آس دِتّی ، کِسے دِل ڈھایا ساڈے سجنڑا حوصلے ویکھ تاں سہی نہ اُف کیتی ، نہ سر چایا
اسکا روپ سنہرا لکھ دے تتلی ، پھول وغیرہ لکھ دے اسکے بدن کو لکھ دے صندل چاند سا اسکا چہرہ لکھ دے ڈوب رہے ہیں ان میں سارے آنکھ کا دریا گہرا لکھ دے ہے رخسار پہ تِل جو کالا اسکو حسن پہ پہرا لکھ دے خونِ ناحق پر جو چپ ہیں ان کو گونگا ، بہرا لکھ دے اشکوں کو اب روک تو شیزا آنکھ کا دریا ٹھہرا لکھ دے