مُجھ پہ طاری ہے راہِ عشق کی آسودہ تھکن
تُجھ پہ کیا گُزری میرے چاند بتا کیوں چُپ ہے
عشق کی تال پہ دَھڑکے تو اُسے دِل کہیے
عشق تو جان مری ، رُوح کا خُوں ہے ، یوں ہے
ہم نے یک طرفہ محبت میں جلا دی کشتی
یار کی سمت سے نہ ہاں ہے،، نہ ہُوں ہے ، یوں ہے..!!
ہاتھ ٹوٹیں، میں نے اگر چھیڑی ھوں زلفیں آپکی۔۔!!
آپ کے سر کی قسم، باد صبا تھی، میں نہ تھا۔۔۔!!
مومن خاں مومن
کبھی دیکھا ھے تو نے..!!
عشق میں وجدان کا..!!
عالم..؟؟
بس تو هی تو، تو هی تُو اور..!!
تو هى تو كا عالم..!! 🙂🖤
کبھی نغمہ آرزو، کبھی زندگی کی پکار ہم
کبھی خاک کوچہ یار ہم ، کبھی شہر یار بہار ہم.
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ
اے ہمارے رب!
مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا!
( سورہ ابراہیم آیت ۴۱ ) ♥
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
مرزا غالب
ہم جو پھیر لیں نظریں!!!
تمہیں پھر کون دیکھے گا....
انسان کے پُورے جسم میں صرف ایک "دل" ہے جو پیدائش سے لے کر موت تک بِنا آرام کیے کام کرتا ہے اُسے ہمیشہ خوش رکھیں چاہے یہ "دل" آپ کا اپنا ہو یا آپ کے اپنوں کا ہو.
آؤ غفلت کے کسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھولے میں جھولا جائے۔۔
روح میں اْترے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کو بھولا جائے۔۔۔۔
قطرہ قطرہ کر کے پگھلتی رہی انتظار زیست
وہ کریں گے ہم سے رابطہ ۔ شاید آج۔۔ شاید ابھی
امید مرتی نہیں سانس کے ٹھہرنے تک
کہ اپنی موت سے لڑ کر بھی لوگ جیتے ہیں
کوئی بھی غم ہو بڑی دیر تک نہیں رہتا
محبتوں میں بچھڑ کر بھی لوگ جیتے ہیں
🥀❤️
شکریہ ان لوگوں کا جو وقت پڑنے پر مصروفیت کا بہانہ بنا کر مجھ سے الگ ہوئے
انہوں نے مجھے سمجھایا کہ کوئی تعلق ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا لوگ آخر بدل ہی جاتے ہیں
روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنم رقصاں ہے
بیداد مشیت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
احساس کے مے خانے میں کہاں اب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شدت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن
احباب کی چاہت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کانٹوں سے بھرا ہے دامن دل شبنم سے سلگتی ہیں پلکیں
پھولوں کی سخاوت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
ساغر صدیقی صاحب
بدگماں ہے تو وضاحت نہیں دینی میں نے
جان دینی ہے مگر اذیت نہیں دینی میں نے
آج اداسی ہے میرے دل میں اتر آنکھ میں جھانک
کل تجھے اسکی بھی اجازت نہیں دینی میں نے
تُو مَیں ہُوا ، مَیں تُو ہُوا ، تُو تَن ہُوا ، مَیں جاں ہُوا
اب کون ہے جو یہ کہے ، تُو اَور ہے ، مَیں اَور ہُوں!!
ہم جیسے خار نُما لوگ کوچ کر گئے تو۔۔۔۔
یہ پُھول روئیں گے ہاتھوں میں تتلیاں لے کر
پھر سے آنکھوں میں خواب انشاء جی!!
اجتناب، اجتناب، اجتناب انشاء جی!!
بتا رہی ہے میرے تن کی خستگی کہ مجھے
تیرا خیال... ضرورت سے کچھ زیادہ ہے
میں جانتی تو نہیں... تجھ سے کیا تعلق ہے
مگر یہ طے ہے کہ... محبت سے کچھ زیادہ ہے
اُس نے پہنا ھے بڑی چاہ سے اک سُرخ عقیق...
اِس طرح ہوتا ھے بھلا، پتھر کو گوارہ پتھر...
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain