محبت کے انداز بھی جُدا جُدا سے ہوتے ہیں
کسی نے ٹوٹ کر چاہا اور کوٸ چاہ کر ٹوٹ گیا
ایڈی سوکھی گل نئیں ہوندی
چھیتی مشکل حل نئیں ہوندی
صبح دی آس نہ لَے کے آویں
سوہنیا ساڈے ول نئیں ہوندی
وٹا وجے پانی دے وچ
ایویں تاں ہلچل نئیں ہوندی
شام ہجر دی آ جاوے تاں
اے جی شام ڈھل نئیں ہوندی
ساڈی کیہ طبیعت ربا...!
نال کسے دے رل نئیں ہوندی
آون والیا اج ای آوِیں
پیار دے وچ تے کل نئیں ہوندی
سچی گل تاں کہنی پیندی
بُلھاں اُتے ٹھل نئیں ہوندی
زندگی ولّ اے تمے والی
اے کوئی مٹھا پھل نئیں ہوندی
بکھری پڑی ہیں پتوں کی طرح لوگوں کی چاہتیں
کوئی حاصل پر رو رہا ہے اور کوئی لاحاصل پر
میں تیرا ذِکر کروں اپنے شعر میں ، یعنی !
فقط دو مصرعوں میں یہ جہاں سمٹ جائے!
جن سے رُوحیں وابستہ ہو جائیں ان سے کسی صُورت بھی دامن نہیں چُھڑواۓ جا سکتے
"شہ رگ سے منسلک ہیں تصور کے سلسلے
یوں تجھ کو بھول جانے میں جاں کا زیاں بھی...
پھر جو اِس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے..
گھر کا آسان پتہ یہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں..
اس لیئے ہم کو نہیں خواہشِ حورانِ بہشت..
ایک چہرہ جو ادھرِ ہے وہ اُدھر ہے ہی نہیں..
"وہ پھول جو ٹھنڈ سے پیدا ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ بہادر ہوتے ہیں۔ درد سے پیدا ہونے والی مسکراہٹوں کی طرح"۔___
لوگوں کو لوگ مل جاتے ہیں کوئی کسی کے بنا مر
نہیں جاتا یہ والی کہانی پچھلی صدی کی تھی
اب یوں ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس لوگ موجود
ہوتے ہیں اور ہم یعنی کہ' ہم 'محض بیچ کا وقفہ
ہوتے ہیں تھکن اتارنے کا وقفہ موڈ بدلنے کا وقفہ
اور پھر وقفہ ختم تو تعلق بھی ختم ۔۔
غلطی ہو تو مان لیں
اور غلط فہمی ہو تو دور کرلیں یہی اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے.🖤
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
*پوری دنیا کی معذرتیں ملا کر بھی ایسے انسان کے لئے کافی نہیں ہوسکتیں جسے اسکے پسندیدہ شخص نے مایوس کیا ہو۔۔۔*
تیری نِیم کش نگاہیں ،، تیرا زیرِ لب تبسم
یونہی اِک اداۓ مستی ، یونہی اِک فریب سادہ
کبھی کبھی تیرا یہ مجھ سے ہم سخن ہونا
منافقت بھی اگر ہے تو ۔۔۔خوبصورت ہے
" بساطِ دِل پہ عجب ہے شِکستِ ذات کا لُطُف
جہاں پہ جِیت اٹل ہو،وہ بازی ہار کے دیکھو۔
دُکھ یہ ہے میرے یوسف و یعقوب کے خالق
وہ لوگ بھی بچھڑے جو بچھڑنے کے نہیں تھے.
اے باد ستم خیز تیری خیر کہ تونے
پنچھی وہ اڑائے جو اڑنے کہ نہیں تھے
تم سے تو کوئی شکوہ نہیں چارہ گری کا
چھوڑو یہ مرے زخم ہی بھرنے کے نہیں تھے
اے زیست ادھر دیکھ کہ ہم نے تری خاطر
وہ دن بھی گزارے جو گزرنے کے نہیں تھے
کل رات تری یاد نے طوفاں وہ اٹھایا
آنسو تھے کہ پلکوں پہ ٹھہرنے کے نہیں تھے
اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے
لوگ تو لوگ تھے آوارہ سمجھتے تھے مجھے
تیری کھڑکی سے تو پتھراؤ نہیں بنتا تھا
یہ بھی اچھا ہے کہ صرف سنتا ہے
دل اگر ۔۔بولتا تو قیامت ہوتی ۔۔۔۔
ایسا کرتے ہیں ایک ملاقات رکھ لیتے ہیں
چائے کی پیالیاں، کچھ سوغات رکھ لیتے ہیں
میں بھی اداس ہوں تم بھی گُم سُم جاناں
محفلِ مشاعرہ اِس رات رکھ لیتے ہیں
تم آئے ہو بڑی چاہ سے بادل کے لیے
سو لے جاؤ ، ہم برسات رکھ لیتے ہیں
کچھ تو بھرم رہے کہ ہم بھی کبھی ساتھ رہے
ہم تحفتاً ایک دوسرے کی عادات رکھ لیتے ہیں
زندگی نے ہم دونوں کو بہت غم دیے
تم رکھو خوشیاں ، ہم تجربات رکھ لیتے ہیں
کچھ ایسا کرتے ہیں کہ یہ ملاقات یاد رہے
ہم قیدِ غزل میں یہ لمحات رکھ لیتے ہیں
سوز فراق یار میں مرنا نہیں کمال🪶
مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے🪶
سوشَل مِیڈِیا پر *فَرِشتَے* بَنے،
ہم لوگ اگر حَقِیقِی زِندگی میں،
صِرف *اِنسَان* ہی بَن جائیں،
*تو کمال ہو جائے۔✨♥️*
صبح بخیر۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain