کسی طرح بھی تو وہ راہ پر نہیں آیا
ہمارے کام ہمارا ہنر نہیں آیا
وہ یوں ملا تھا کہ جیسے کبھی نہ بچھڑے گا
وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
ہم آپ اپنا مقدر سنوار لیتے مگر
ہمارے ہاتھ کف کوزہ گر نہیں آیا
خبر تو تھی کہ مآل سفر ہے کیا لیکن
خیال ترک سفر عمر بھر نہیں آیا
میں اپنی آنکھ کے روزن سے دیکھ سکتا ہوں
وہ پھول بھی جو ابھی شاخ پر نہیں آیا
ابھی دلوں کی طنابوں میں سختیاں ہیں بہت
ابھی ہماری دعا میں اثر نہیں آیا
SuNny-ChauDhry
"غزل"
پروین شاکر
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہُوا
مگر یہ دِل تِری جانب سے صاف بھی نہ ہُوا
تعلقات کے بَرزخ میں ہی رکھا مُجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہُوا
عجب تھا جُرمِ مُحبّت کہ جس پہ دل نے مِرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہُوا
مَلامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کُوئے جفا کا طواف بھی نہ ہُوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جَمی مِلی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہُوا
ہَوائے دہر! ہمیں کِس لئے بُجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہُوا
SuNny-ChauDhry
کہیں پر صبح رکھتا ہوں کہیں پر شام رکھتا ہوں
پھر اس بے ربط سے خاکے میں خود سے کام رکھتا ہوں
سلیقے سے میں اس کی گفتگو کا لطف لیتا ہوں
اور اس کے رو بہ رو دل میں خیال خام رکھتا ہوں
بہ ظاہر مدح سے اس کی کبھی تھکتا نہیں لیکن
درون خانۂ دل خواہش دشنام رکھتا ہوں
خوش آئی ہے ابھی تو قید خواہش اس خرابے میں
ابھی خود کو رہین گردش ایام رکھتا ہوں
سفر کی صبح میں رنج سفر کی دھول اڑتی ہے
حد آغاز میں اندیشۂ انجام رکھتا ہوں
فراق و وصل سے ہٹ کر کوئی رشتہ ہمارا ہے
کہ اس کو چھوڑ پاتا ہوں نہ اس کو تھام رکھتا ہوں
دلیل خواب مستی ہے تری آمادگی امشب
مگر اس شب میں تجھ سے اور کوئی کام رکھتا ہوں
تجاوز سے بھلا کب تک گزر اوقات ممکن تھی
سو اپنے خون تک شور دل بد نام رکھتا ہوں
SuNny-ChauDhry
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری
میں نے آغوش تصور میں بھی کھینچا تو کہا
پس گئی پس گئی بے درد نزاکت میری
آئینہ صبح شب وصل جو دیکھا تو کہا
دیکھ ظالم یہ تھی شام کو صورت میری
یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری
حسن اور عشق ہم آغوش نظر آ جاتے
تیری تصویر میں کھنچ جاتی جو حیرت میری
کس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیرؔ
وہ مرا گھر ہے رہے جس میں محبت میری
SuNny-ChauDhry
پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئنے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
ہزاروں شیر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا
محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
SuNny-ChauDhry
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کہ دونوں کے گرفتار رہے، جانتے ہیں
دامِ دنیا سے کہیں زلف کا جال اچھا ہے
میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک؟
مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے
دل نہ مانے بھی تو ایسا ہے کہ گاہے گاہے
یارِ بے فیض سے ہلکا سا ملال اچھا ہے
لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی
مستقل ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھا ہے
رہروانِ رہِ اُلفت کا مقدر معلوم
ان کا آغاز ہی اچھا نہ مال اچھا ہے
دوستی اپنی جگہ، پر یہ حقیقت ہے فراز
تیری غزلوں سے کہیں تیرا غزال اچھا ہے
اSuNny-ChauDhry
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
یہ ہجر ہے تو اس کا فقط وصل ہے علاج
ہم نے یہ زخم وقت کو بھرنے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا
ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا
جتنا سکوں ملا ہے ترے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا
اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیمؔ اس کو مکرنے نہیں دیا
SuNny-ChauDhry
اب کے جنوں میں لذت آزار بھی نہیں
زخم جگر میں سرخئ رخسار بھی نہیں
ہم تیرے پاس آ کے پریشان ہیں بہت
ہم تجھ سے دور رہنے کو تیار بھی نہیں
یہ حکم ہے کہ سونپ دو نظم چمن انہیں
نظم چمن سے جن کو سروکار بھی نہیں
توڑا ہے اس نے دل کو مرے کتنے حسن سے
آواز بھی نہیں کوئی جھنکار بھی نہیں
ہم پارسا ہیں پھر بھی ترے دست ناز سے
مل جائے کوئی جام تو انکار بھی نہیں
ٹھہرے اگر تو دور نکل جائے گی حیات
چلتے رہو کہ فرصت دیدار بھی نہیں
جشن بہار دیکھنے والوں کو دیکھیے
دامن میں جن کے پھول تو کیا خار بھی نہیں
SuNny ChauDhry
میں صبر کا یہ معیار چاہتا ہوں کہ
وہ میرے سامنے سے گُزر جائے اور میرے دل کی دھڑکن تیز نہ ہو..!🔥SuNny ChauDhry
ﯾﮧ ﻓﺨﺮ ﺗﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﺑﺮﮮ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﮭﻠﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﻗﺪﻡ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺟﻠﻨﺎ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﺭ ﮨﮯ ﺍﺯﻝ
ﺳﮯ
ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮐﻨﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺠﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ
ﺟﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﮭﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﮐﮧ ﺳﺮِ ﺷﺎﻡ ﮨﯽ ﮈﻭﺑﮯ
ﮨﻨﮕﺎﻡِ ﺳﺤﺮ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﺧﻮﺭﺷﯿﺪ ﮈﮬﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺟﮭﯿﻞ ﮔﺌﮯ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﮐﮍﯼ ﺩﮬﻮﭖ
ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ
ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻨﮏ ﭼﮭﺎﺋﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ
ﺟﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﮎ ﺷﻤﻊ ﺑﺠﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻼ ﻟﯿﮟ
ﮨﻢ ﮔﺮﺩﺵِ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﭼﺎﻝ ﭼﻠﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺍﺩﺍ ﺟﻌﻔﺮﯼ
%% SuNny ChauHdry
ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮍﮬﺘﺎ، ﺁﻧﮑﮭﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﻴﮟ بهی کیسی ﺑﺎﺗﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺳﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﺟﻴﺴﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﻴﮟ
ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﺎﺧﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺗﻴﻮﺭ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ
ﺁﮌی ﺗﺮچهی ﺳﻄﺮﻳﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺗﻴﺮﮮ ﮨﺠﺮ ﻣﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻴﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ؟
ﺗﻴﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺘﺎﺑﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺗﻴﺮی ﺯﻟﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﺩﮬﻴﺎﻥ ﻣﻴﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻴﮟ
ﻣﻴﮟ ﺻﺒﺤﻮﮞ ﮐو ﺷﺎﻣﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻴﺎﺭ کے ﭘﮭﻮﻝ ﻣﮩکتی ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﻴﮟ
ﻟﻮﮔﻮﮞ کی ﺩﻳﻮﺍﺭﻳﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﮐﮫ ﺩﮨﺮﺍﺅﮞ ﮔﺎ
ﮨﺠﺮ کی ﺳﺎﺭی ﺑﺎﺗﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺳﻮﮐﮭﮯ ﭘﮭﻮﻝ، ﮐﺘﺎﺑﻴﮟ، ﺯﺧﻢ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﮯ
ﺗﻴﺮی ﺳﺐ ﺳﻮﻏﺎﺗﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ کی بهیگی ﭘﻠﮑﻴﮟ ﮨنستی ﺭﮨتی ﮨﻴﮟ
ﻣﺤﺴﻦ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻏﺰﻟﻴﮟ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮں..
%% SuNny ChauHdry
ﺗﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ، ﺗﺮﺍ ﻟﮩﺠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺩﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻢ ﺳﻔﺮ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﺎ ﺭﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﺑﮭﻼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺪﺍﻭﺍ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﻣﺎﮞ ﺟﺲ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﭽﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﻗﺮﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻤﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﻣﺴﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎﺋﮯ ﺍﺑﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺻﺤﺮﺍ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﺟﮩﺎﮞ ﻇﻠﻤﺖ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﻨﺠﮯ ﮔﺎﮌ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺭﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﻠﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
.
SuNny-ChauDhry
ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﮦ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﯾﺎ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻣﺒﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺛﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺷﺎﺭﺍ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﻏﺮﻭﺭ ﭘﺮﻭﺭ، ﺍﻧﺎ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ، ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﺮﮮ
ﻣﮕﺮ ﻗﺴﻢ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﮎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﭘﮑﺎﺭﺍ ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻃﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﮭﯿﻠﻮ، ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﻟﮕﺎﺅﮞ ﺑﺎﺯﯼ
ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺘﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﻣﯿﺮﮮ، ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﺍ ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻋﺎﺷﻖ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺨﻠﺺ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺳﺎﺗﮭﯽ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ
ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﭘﮧ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﮔﺮ ﻣﻘﺪﺭ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﻮﭨﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺘﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
ﯾﮧ ﮐﺲ ﭘﮧ ﺗﻌﻮﯾﺰ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﻇﯿﻔﮯ
ﺗﻤﺎﻡ ﭼﮭﻮﮌﻭ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺟﻮ ﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ
%% SuNny ChauDhry %
کیا یہ بھی زندگی ہے کہ راحت کبھی نہ ہو
ایسی بھی تو کسی سے محبت کبھی نہ ہو
وعدہ ضرور کرتے ہیں آتے نہیں کبھی
پھر یہ بھی چاہتے ہیں شکایت کبھی نہ ہو
شامِ وصال بھی، یہ تغافل، یہ بے رُخی
تیری رضا ہے مجھ کو مسرّت کبھی نہ ہو
احباب نے دیئے ہیں مجھے کس طرح فریب
مجھ سا بھی کوئی سادہ طبیعت کبھی نہ ہو
لب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اٹھ بڑھ کے چوم لے
آنکھوں کا یہ اشارہ کہ جرات کبھی نہ ہو
دل چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
مجھ کو تیرے خیال سے فرصت کبھی نہ ہو
%% SuNny ChauHdry
محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔
بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔
۔۔
وہی ہُوا نا ، بدلتے موسم میں تم نے ہم کو بھلا دیا ہے۔۔۔
کوئی بھی رُت ہو نہ چاہتوں کو زوال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔
۔۔
یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز میں ہی یارو
کوئی بھی تھک کے نہ راستے میں نڈھال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔
۔
جدا ہوئے ہیں تو کیا ہوا ہے یہی تو دستور زندگی ہے
جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔
۔
چلو کہ فیضان کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہو گا۔۔۔ یہ طے ہوا تھا۔
%% SuNny ChauHdry
بچھڑ کے پھر ملیں گے یقین کتنا تھا
تھا تو اک خواب مگر حسین کتنا تھا
میرے زوال سے پہلے ہی مجھے چھوڑ گیا
خوبصورت تو تھا ہی ذہین کتنا تھاSuNny-ChauDhry
تیری دنیا پہ کھلتا کیوں نہیں ہوں
یقیننآ میں ابھی موزوں نہیں ہوں
میرا ہونا ابھی تشقیق میں یے !
معمہ ہے کہ میں ہوں یا نہیں ہوں
تیرے آنے کا دھڑکا سا ہے ورنہ!
میں ہر دستک پہ ہی کہہ دوں, نہیں ہو ں
%% SuNny ChauHdry %%
تیری دنیا پہ کھلتا کیوں نہیں ہوں
یقیننآ میں ابھی موزوں نہیں ہوں
میرا ہونا ابھی تشقیق میں یے !
معمہ ہے کہ میں ہوں یا نہیں ہوں
تیرے آنے کا دھڑکا سا ہے ورنہ!
میں ہر دستک پہ ہی کہہ دوں, نہیں ہو ں
%% SuNny ChauHdry %%
ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﺮﺍ ﮨﺮ ﻧﺎﺯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﺟﻮ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮔﻨﮕﻨﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﺩﻝِ ﺳﺎﺩﮦ ﻣﺮﺍ ﺭﻭ ﺩﮮ
ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﮭﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺮﺍ ﮨﺮ ﺳﺎﺯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﮔﮭﭩﺎ ﭼﮭﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻟﯽ ﺗﮑﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻓﻀﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ
ﻧﺠﺎﻧﮯ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺮﺍ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭨﮭﭩﮭﺮﺗﮯ ﻟﺐ، ﻟﭩﯿﮟ ﺍﻟﺠﮭﯿﮟ، ﺳﻤﭩﺘﺎ ﺑﮭﯿﮕﺘﺎ ﺁﻧﭽﻞ
ﮐﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﻣﻨﻔﺮﺩ ﮨﮯ ﮐﺐ ﻣﺮﺍ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﻧﻈﺎﺭﮦ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺩﺭﻣﺎﮞ
ﻓﻘﻂ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﮐﮍﮮ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ
ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺮﺍ ﮨﺮ ﻧﺎﺯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﮭﭙﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﯿﺎ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﻮﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﺎ ! ﮐﯿﻮﮞ ﮐﭙﮑﭙﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ...
%% SuNny ChauHdry %
تیرے وصال کی ٹوٹی ہے یوں بھی آس اکثر
تو دور رہ کے بھی ہم سے، رہا ہے پاس اکثر
تیرے بغیر کمی تو نہ تھی کوئی لیکن !
تیرے بغیر مگر ہم رہے اداس اکثر
تیرے وصا ل کی خواہش یقین تھا میرا
یہی یقین پھر آخر ھوا قیاس اکثر
یہ خال و خد کا طلسم ہے یا فریب نگاہ
کہ دھوکہ کھا گۓ چہرہ شناس اکثر
وہ جھیل تھیں کے سمندر خبر نہیں مجھ کو
عجیب آنکھیں تھیں جن سے بڑھی ہے پیاس اکثر
%% SuNny ChauHdry %%
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain