آخری رو میں چہرے پے گہری مسکراہٹ سجاے وہ چیئر پے بلکل ایسے براجمان تھا جیسے کوئی بادشاہ اپنے تخت پے بیٹھا ہو. جب کے اپنی تمام تر توجہ سے شانزے کو ہی دیکھ رہا تھا ایک آگ تھی جو شانزے کی آنکھوں میں جل رہی تھی. جب کے اس کی آنکھوں میں تو شرارتوں کی قوس و قزح بھکری ہوی تھی. تبھی اس نے سر پے سلوٹ کے انداز میں ہاتھ لگایا جیسے اپنی شاندار پرفورمنز پے داد وصول کرنا چاہ رہا ہو. جب کے شنزا نے اس کہ جانے والی نظروں سے دیکھا.
———————————————————————————–
ارے یار آج تو مزہ آگیا کیا بیوقوف بنایا ہے. رانیہ نے چیر کھنچتے ہوے بولی.. شکل دیکھی تھی اس کی بس رونا باکی رہ گیا تھا. سوری سر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے شاید… محسن نے نکل اترنے والے انداز میں بولا. وہ سب اب کینٹین میں بیٹھےشانزے کا مذاق اڑا رہے تھے.
بس ہو گیا تم سب کا…..؟؟؟ میں شرط جیت چکا ہوں…
جی بیٹا میں ہی ہوں پروفیسر مستنصر…
پروفیسرنے اپنی مسکراہٹ کو دبایا تھا. شاید وہ سمجھ گئے تھے کہ شانزے کسی مذاق کا حصہ بنی ہے لیکن وہ اس سے شرمندہ نہیں کرنا چاھتے تھے.
جب کہ ان کی بات سن کرشانزے کو لگا کہ وہ زمین پے گر جائے گی یا پھر کلاس کی چھت اس کے اوپر گر جائے گی…
جب کہ پوری کلاس میں سے کھی کھی کی آوازیں آرہی تھی. شاید پروفیسرصاحب کا ڈرتھا تبھی کوئی کھل کے کچھ کہنا سکا تھا.
سوری سر..!! مجھے کوئی غلط فہمی ہوی تھی… شانزے نے مری مری آواز میں کہا.
ایٹس اوکے بیٹا اپ اپنی کلاس میں جا سکتی ہیں.
تھنک یو سر… وہ جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کےشانزے کی نظر اس پے پڑی.
یس کم ان.. ڈائیزکے پیچھے کھڑے ادھیڑ عمر شخض نے اندرآنے کا اشارہ کرتے ہوے کہا. شانزے کے اندازے کے مطابق انہی پروفیسر ہونا چاہیے تھا. وہ اپنی سوچوں میں گم ڈائیز تک آئ تھی.
جی بیٹا بولیے.. نہایت نرم لہجے میں دوبارہ پوچھا گیا تھا.
جی مجے پروفیسر مستنصر سے ملنا ہے. شانزے نے جھجھکتے ہوے کہا.
جی بولیے… اس آدمی نے دوبارہ کہا حد درجہ شیری لہجہ تھا.
جی… وہ مجھے… مجھے پروفسسر مستنصر… سے بات کرنی ہے… کافی اٹک اٹک کے اس نے دوبارہ اپنی بات دوہری تھی. شانزے کا سارا اعتماد غائب ہو چکا تھا.
وہ کافی دیر سے کلاس کے باہرکھڑی تھی. پروفیسر مستنصر اسے باہر کھڑا کر کے گئے تھے تاکہ آنے والے ہر سٹوڈنٹ کا نام وہ لکھ سکے ایسا کرنے کی تائید بھی اس کو پروفیسر نے ہی کی تھی. وہ چاہتے تھے کے کوئی بھی سٹوڈنٹ کلاس سے بنا اٹینڈنس کے نہ جائے. شانزے اپنا کام پوری ایمانداری سے کر رہی تھی. سب سٹوڈنٹ آچکے تھے لہٰذا وہ کلاس میں داخل ہوی تاکہ پروفیسر کو انفارم کرسکے.
مے ای کم ان سر ؟؟ اس نے دروازے پے کھڑے ہو کے پوچھا
کیوں…!! آپ کو کوئی شک ہے کیا ؟؟ جوابن اس نے مڑ کر شانزے کی کالی گہری بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھا.
نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا دراصل آپ…..
میں کیا ؟؟ وہ ابھی بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا.
بہت ینگ ہوں ؟؟ یا ہنڈسم ہوں ؟؟
اگر بغیر فیل ہوے پڑھا جائے تو انسان ینگ ایج میں پڑھ لیتا ہے۔
اپنی ہنسی دباتے ہوے اس نے شانزے کی بات کو کاٹتے ہوے کہا اور اگر اب بھی یقین نہیں ہے تو پھر ہم ڈیپارٹمنٹ کورڈنیٹر کے پاس چلتے ہیں۔ ٹھیک ہے ؟؟ اب کی بار ایک ایک لفظ کافی چبا کر کہا گیا تھا۔
نہیں سر۔۔۔ آئ ایم ریلی سوری۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ اب وہ واقعی شرمندہ نظر آرہی تھی۔
اوکے تو چلیں پھر۔۔۔ کہتا وہ آگے بڑھ گیا تھا۔
شانزے نے اثبات میں سر ہلایا.
میرا نام پروفیسر مستنصر ہے۔ میرے ساتھ آجائیں۔
جی پر آپ۔۔۔ شانزے اپنی بات مکمل کرتی اس سے پہلے ہی وہ اس کی بات سنے بغیر آگے بڑھ گیا تھا.
پروفیسرمستنصر کی عمر زدہ نہ تھی. 6 فٹ سے نکلتا ہوا قد۔ صاف رنگت. سلیقے سے بنے بال. وائٹ شرٹ اور بلو جینس پہنے آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیا ہوا تھا۔ ہاتھ میں ایپل کے نیو ماڈل کا موبئل لیے وہ اس کے آگے چلتے عمر یا ہولیے کہیں سے بھی پروفیسر نہیں لگ رہے تھے۔ بلکے اسے تو وہ کسی فلم کا ہیرو لگ رہےتھے۔ تبھی وہ کنفیوز ہو رہی تھی. شانزے نے سینئرز کی شرارتوں کے بہت سے قصے سن اور پڑھ رکھے تھے.لہزا اس نے اپنے صبر کو مزید آزمانے سے گریز کیا اور سیدھا سیدھا سوال کر لیا. آپ سچ میں پروفیسر ہیں چہرے پے دنیا بھر کی معصومیت سجاے اپنی کالی گہری بڑی بڑی آنکھوں سے وہ پروفیسر مستنصرکو ہی دیکھ رہی
کیونکہ یہاں شاید ہی کوئی سٹوڈنٹ ہو جو کسی نارمل فیملی سے تلعق رکھتا ہو۔ یہاں کی لڑکیوں میں اور اس میں زمین آسمان کا فرق تھا وہ سب جینس شرٹ پہنے، سلوز لیس شرٹس پہنے، بال کھولے اور فل میک اپ میں تھی جب کے شانزے سادہ سے لباس میں اونچی سی پونی باندھے بغیر میک اپ کے کسی اور ہی دنیا کی مخلوک لگ رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کے چہرے پے کہیں کوئی گھبراہٹ نہں تھی۔ آنکھوں میں ڈھیر سرے خواب سجاے وہ اتنی ہی باعتماد تھی جتنی یہاں تعلیم حاصل کرنے والی کوئی اور لڑکی ہو سکتی تھی۔ اس کا یونیورسٹی آنے کا مقصد صرف تعلم کا حصول تھا نہ کہ ان لوگوں کو دیکھنا اور ان جیسا بنا.
شانزے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ گئی تھی۔ اس سے پہلے کے وہ کسی سے اپنی کلاس پوچھتی تبھی ایک لڑکا اس کے پاس آیا۔
ایکسٹیوز می۔۔۔!!! آپ نیو سٹوڈنٹ ہیں۔؟؟ بی ایس سی فرسٹ سیمسٹر ؟؟
پر اس نے خواب بھی کہاں دیکھا تھا۔ اور اتنے بڑے خواب دیکھنے کی اجازت ہی کب تھی اسے۔ وہ جانتی تھی اپنے ماں باپ کے حالات اور خاندان میں ان کی پوزیشن۔ کتنا سنا پڑا تھا اس کے ماما پاپا کو لیکن بہرحال اسے اس گھٹن زدہ ماحول سے آزادی مل گئی تھی جہاں ہر غلطی ہر مسلے کی قصوروار وہ ہی ہوتی تھی۔ آج تک جن تعلیمی اداروں میں اس نے پڑھا تھا وہاں سٹوڈنٹس درمیانے طبقے کے تھے۔ لیکن اس یونیورسٹی کی بات الگ تھی۔ کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی۔ شانزے کے لیے بھی یہاں ایڈمشن لینا نہ ممکن ہوتا اگر اسے سکولر شپ نہ ملتی۔ پورے خاندان کی مخالفت لے کر اس کے بابا جانی نے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے فیصلے میں یس کا ساتھ دیا اور اسے بھی ان کا ماں رکھنا تھا۔ پریہاں اکر کافی حد تک اسے اپنے فیصلے پے پچتاوا ہوا تھا۔
آج یونیورسٹی میں اس کا پہلا دن تھا آج سے پہلے وہ کبھی یونیورسٹی نہیں آئ تھی۔ وہ ایک زہین سٹوڈنٹ تھی میٹرک میں بھی 90 % نمبر لیے تھے پر خاندان بھر کی مخالفت نے اسے کسی بڑے کالج میں ایڈمشن کی اجازت نہ دی اس لیے اس نے گورمنٹ کالج سے Fsc کیا تھا اور وہاں بھی بورڈ میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی اور شاید اس وجہ سے ہی اس میں خود اعتمادی آگئی تھی۔ اور اب اسکالر شپ پے اسے اس بڑی یونیورسٹی میں آرام سے ایڈمشن مل گیا تھا۔ آج سے پہلے اس نے صرف نام سنا تھا. اور آج یہاں ہونا بلکل ایسا تھا جیسے خواب کا پورا ہو جانا۔
Muhabt se zida mubat ha tm se Ye dil keh Raha Ha kasm se kasm se😍😍
کس کو خبر ہے کہ کن حالات میں جی رہا ہوں میں۔
یوں تو دریا بہ رہا ہے پاس میرے اور پانی چرا کر پی رہا ہوں میں
عجیب کیفیت ہے کہ وہ میرے ہو کر بھی بات نہیں کرتے
کس کو سناؤ الفاظ، بس! لبو کو سی رہا ہوں میں
مجھ جیسے شخص کے زندہ رہنے یا مرنے سے کیا کسی کو
آخری سانس بچی ہے اور زہر پی رہا ہوں میں
کیا کیا سوچتا تھا تاروں کو چاند سے جدا دیکھ کر
آج اندھیری رات ہے ، کیسے؟ جی رہا ہوں میں
اگر نہ کھلے تیرے دروزے بند
تو در بہ در کہاں جائے گے ہم
تم نے جو کیا انکارِ عشق ۔۔۔
یونہی بے وجہ مر جائے گے ہم
کچھ پیڑوں کے پتے کیے جائے گے اکٹھے
اور سر سے پاؤں تک نہلا دیے جائے گے ہم
کفن پہنا کر خوشبو لگا کر
چارپائی پر سجا دیے جائے گے ہم
تو میرا منہ بھی دیکھنے کو ترسے گا
تیرے آنے سے پہلے دفنا دیے جائے گے ہم
Ayan ShaH
Hmm to dil de chuke bas tere han ha baki thora sa hoa ha piar thora baki ha
Tumy paa kar jo hasil hoi kushi han tun ha tun ha mere batao main mere kayalo main
تمہیں مجھ پر دسترس ہے پھر بھی تم میری کیوں نہیں ہوتی۔
ہم تو پورے کے پورے تمہارے ہے تم آدھی بھی نہیں ہوتی۔
تمہیں دیکھنے کے بعد آنکھوں میں خوشی تو ہوتی ہی نیند نہیں ہوتی۔
تمہیں یاد کرتے رہنا میری عادت ہے بن گئی۔
تمہیں بھول جانے کی ہم سے کوشش بھی نہیں ہوتی۔
حُسن میں دیکھے تو حوروں سے بھی حسِین ہو۔
تمہیں دیکھنے کی خواہش میری کم نہیں ہوتی۔
سَر سے دوپٹہ گِرے، سورج ڈوبے، شام ڈھلے بس بات یہ ہے
ان کی ذلفیں بکھر جائے اگر میرے شہر میں سحر نہیں ہوتی۔Do Dil Ek Jan
Main Hoin Ek Kanwra😍aek Kanwari Cheye🙈🙈
Aj raat ka scene bana le😍😍
کس کو خبر ہے کہ کن حالات میں جی رہا ہوں میں۔
یوں تو دریا بہ رہا ہے پاس میرے اور پانی چرا کر پی رہا ہوں میں
عجیب کیفیت ہے کہ وہ میرے ہو کر بھی بات نہیں کرتے
کس کو سناؤ الفاظ، بس! لبو کو سی رہا ہوں میں
مجھ جیسے شخص کے زندہ رہنے یا مرنے سے کیا کسی کو
آخری سانس بچی ہے اور زہر پی رہا ہوں میں
کیا کیا سوچتا تھا تاروں کو چاند سے جدا دیکھ کر
آج اندھیری رات ہے ، کیسے؟ جی رہا ہوں میں
Ayan ShaH
Ni ek tera suit ni ek tere gani
Ni ek tera nakhra ty chardi jawani
Ek tere sandal ek tere chal
Morni ji tor kuri lagdi kamal
💔ni ek tera hasana oye💔
Dil vich vasna oye
Sanu to jach gai ey
Mamy no dasna oye
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain