کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا ندا فاضلی
کیا زمانہ تھا ، کہ ہم روز مِلا کرتے تھے رات بَھر، چاند کے ہَمراہ پِھرا کرتے تھے جہاں تنہائیاں سَر پھوڑ کے سو جاتی ہیں اِن مکانوں میں ، عجب لوگ رہا کرتے تھے کر دیا آج زمانے نے اُنہیں بھی مجبُور کبھی یہ لوگ مِرے دُکھ کی دَوا کرتے تھے دیکھ کر جو ہمیں ، چُپ چاپ گُزر جاتا ہے کبھی اس شخص کو ہم پیار کِیا کرتے تھے اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصرؔ آج وُہ دیکھ رہے ہیں، جو سُنا کرتے تھے ناصرؔ کاظمی ¹⁹⁷²-¹⁹²⁵ (دِیوان)