چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محو یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
ھمارے دِل میں کہیں درد ھے ؟
نہیں ھے نا ؟
ھمارا چہرہ بھلا زرد ھے ؟
نہیں ھے نا ؟
سُنا ھے ھجر میں چہروں پہ دُھول اُڑتی ھے
ھمارے رُخ پہ کہیں گرد ھے ؟
نہیں ھے نا ؟
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
ڈوبے ھوؤں کو ہم نے بچایا تھا اور پھر
کشتی کا بوجھ کہہ کے اتارا ہمیں گیا
🔺
کبھی رُک گئے کبھی چل دئیے
کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے
یونہی عمر ساری گزار دی
یونہی زندگی کے ستم سہے
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں
تُو جہاں ملا تجھے دیکھ کر
نہ نظر ملی نہ زباں ہلی
یونہی سر جھکا کے گزر گئے
کبھی زلف پر کبھی چشم پر
کبھی تیرے حسیں وجود پر
جو پسند تھے میری کتاب میں
وہ شعر سارے بکھر گئے
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے
مگر آج ہم ہیں جدا جدا
وہ جدا ہوئے تو سنور گئے
ہم جدا ہوئے تو بکھر گئے
کبھی عرش پر کبھی فرش پر
کبھی اُن کے در کبھی در بدر
غمِ عاشقی تیرا شکریہ
ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
باتوں باتوں میں خُرافات پہ آ سکتا ہے
جو بھی کمظرف ہو اوقات پہ آ سکتا ہے
اتنا مغرور نہ بن سامنے تاریخ بھی رکھ
بانٹنے والا بھی خیرات پہ آ سکتا ہے_##
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجئے قبول مجھے میری ہر کمی کے ساتھ
❗❗❗
بے موت مر جاتے ہیں
بے آواز رونے والے
😐
سنو جاناں!!!۔۔
قائداعظم کی ہی بات مان لو
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ایک ہونا پڑے گا 😉😬
آخری بار صدا دے کے سدا سوچتا ہوں
ایک بار اور پکاروں گا اسے آخری بار
☺
وجہِ تسکین بھی ہے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائےتو گراں بھی ہے
زندگی جس کے دم سے ہے ناصرؔ
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے
✔
یہ جو سانپ سیڑھی کا کھیل ہے
ابهی ساتھ تھے دونوں ہم نوا
وہ بھی ایک پہ، میں بھی ایک پہ
اسے سیڑھی ملی وہ چڑھ گیا
مجھے راستے میں ہی ڈس لیا
میرے بخت کے کسی سانپ نے
بڑی دور سے پڑا لوٹنا
زخم کھا کے اپنے نصیب کا
وہ ننانوے پہ پہنچ گیا
میں دس کے پھیر میں گِھر گیا
اسے ایک نمبر تھا چاہئے
جو نہیں ملا، سو نہیں ملا
میں بڑھا تو بڑھتا چلا گیا
بس ایک چوکے کی بات تھی
پر اس سے جیتنا میری مات تھی
میں نے جان کے گوٹ غلط چلی
اور سانپ کے منہ میں ڈال دی
یہ جو پیار ہے ___ کبھی سوچنا
یہ بھی سانپ سیڑھی کا کھیل ہے
(امجد اسلام امجد)
پوچھا جو اس نے حال ، تو پلکوں سے ٹوٹ کر
چھوٹا سا ایک اشک، بڑا کام کر گیا
😥
چیخ اٹھے ہو مجھ کو سن کر محفل میں
اور میں اس امداد کا مطلب سمجھا نہیں!
بھائی!! کیسا روگ لگا ہے____ بولو بھی
آدھے شعر پہ داد کا مطلب سمجھا نہیں!
مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے، حد ہے
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے
عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے
بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے
اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے حد ہے
شاعری پر ہے وہ اب تک غالب
نام میں جس کے اسد ہے حد ہے
روک سکتے ہو تو روکو جاذل
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے
جیم جاذل
تعریفوں کے پل کے نیچے
مطلب کی ندیاں بہتی ہیں
✔
۔۔۔۔اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو
۔۔۔۔ حسب طاقت ہر کوئی فرعون ہے
💯💯
مَیں نے تُمہیں مُنافقوں سے کھینچ کر نِکالا تَھا
لیکن جہاں کی اِینٹ ہو ! آخِر وَہِیں پہ لگتی ہے
سہمی ہوئی ہے جھونپڑی بارش کے خوف سے
محلوں کی آرزو ہے کہ برسات تیز ہو
پرانی غزل ڈسٹبین میں پڑی تھی
نــــیا شـــــعر ٹیبل پہ رکھا ہوا تھا ،،
تمہیں دیکھ کر کچھ تو بھولا ہوں میں
ارے ہاں _ یاد آیا _ میں روٹھا ہوا تھا
🙃..!!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain