گورنمنٹ ہائی سکول چپلی پور وہ درسگاہ ہے جہاں ساڑھے سات سو نمبر لے کر میٹرک پاس کرنے والا ایک ثانئ آئن سٹائن آج دنیا کو فلسفے کی ایک نئی تعریف سے روشناس کروا رہا ہے۔ اس باہمت شخص نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگرچہ آپ ریاضی میں مشاق نہ ہوں، اگرچہ آپ اسلامیات کے پرچے میں بمشکل 50 فیصد نمبر لے سکیں، اگرچہ کیمیا آپ کا جینا حرام کیے رکھے لیکن آپ ان سب باتوں سے بلند ہو کر فلسفے اور ادب کی دنیا میں قدم رکھ سکتے ہیں اور اپنے اس فلسفہ کی جلا سے سب لوگوں کے دماغ کی بتی گل کر سکتے ہیں۔
دو ٹکے کے روشن خیال "مفکرین" کو مغرب نے اتنا ذہنی غلام بنا ڈالا ہے کہ امریکہ نے دو دن میں دو ایٹم بم گرا کر لاکھوں لوگ قتل کر ڈالے، پھر عراق، افغانستان ، صومالیہ ، لیبیا، یمن ، شام ، ویتنام اور فلسطین میں ایک کروڑ سے زیادہ بے گناہوں کو قتل کر دیا گیا، غزہ میں بربریت کی انتہا ہو گئی لیکن اس سب ظلم و زیادتی سے ان نام نہاد دانشوروں کے نزدیک نہ تو لبرل ازم کی عزت آبرو پر کوئی حرف آیا اور نہ ہی مغرب کی عالمی پولیس مینی اور امن کی ٹھیکیداری کے دعوے کو کوئی زک پہنچی۔ لیکن جناب جونہی دنیا کے کسی کونے میں کوئی گستاخ رسول قتل ہو جائے یا حماس جیسے مجاہدین اپنے دفاع میں ہی ہتھیار اٹھا لیں تو یہ منافق واویلا مچا دیتے ہیں کہ ہائے اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کر دیا، ہائے مسلمانوں کو لوگ اب انتہا پسند اور دہشتگرد کہیں گے۔۔۔۔۔
دمادم پر اتنے گھٹیا اور نیچ لوگ بھی موجود ہیں کہ گستاخ رسول شیطان رشدی ملعون کا بھی دفاع کر رہے ہیں اور اس کی حمایت میں ثقہ حدیث مبارکہ "من سب نبیا فاقتلوہ" کو بکواس کہنے کی جرات بھی کر رہے ہیں۔
We stand with Haadi Matar.
جب کوئی یوتھیا مجھے فوج پر تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے تو میری ہنسی نکل جاتی ہے۔ ایسا لگنے لگتا ہے جیسے کوئی بچہ جیب خرچ بند ہو جانے کے بعد اپنے ابا کی برائیاں کر رہا ہو۔ وہی ابا جو اس کو دنیا میں لانے کا سبب بنے اور جنہوں نے اس کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھایا۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ یہ کوئی اصولی ناراضگی تھوڑی ہے۔ اگر آج ابا جی اسے گلے سے لگا لیں اور اس کا جیب خرچ بحال کر دیں تو وہ "ابو ابو" کہتا ہوا ان کے سینے سے جا لگے گا۔
دمادم پر لاگ ان کرتے ہی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی ماہر نفسیات کے دفتر میں پہنچ گئے ہیں جہاں ذہنی مریضوں کا ایک جم غفیر موجود ہے جو اونچی اونچی آواز میں ڈاکٹر صاحب کے حضور اپنے دکھڑے گوش گزار کر رہا ہے اور کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے پا رہی اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے کسی اخبار کا "ضرورت رشتہ" والے اشتہارات پر مشتمل صفحہ کھول لیا ہے۔
آج سے ٹھیک 117 سال قبل ٹیچی ٹیچی نامی "فرشتے" سے وحی وصول کرنے والے مرزا غلام قادیانی کذاب ملعون کو اتنے پیچش لگے ہوئے تھے کہ بیچارہ اپنی شلوار میں ہی ہگ رہا تھا اور اپنی اسی گندگی اور غلاظت میں لتھڑ کر 26 مئی کو اپنی چارپائی اور لیٹرین کے درمیانی مقام پر جہنم کو سدھار گیا۔
انسانی ترقی کا دعوی بھی کتنا کھوکھلا ہے نا۔ ہم نے جراثیم کش ادویات سے متعدی امراض کو قابو کرنے کی کوشش کی تو طویل العمری کی بیماریاں جیسے سرطان کی شرح بڑھ گئی۔ ہم نے کیڑے مار ادویات سے فصلوں کو بچایا تو وہی کیڑے مار ادویات ہماری خوراک کا حصہ بن کر ہماری رگوں میں زہر بن کر دوڑنے لگیں۔ ہم نے ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے قابل تجدید توانائی کے نام پر الیکٹرک گاڑیاں اور سولر پینل بنائے تو ان کے بنانے کے لیے خام مال اور معدنیات کی تلاش نے ماحول کو دوگنا نقصان پہنچا دیا۔ دور بیٹھے لوگوں سے بات کرنے کو موبائل اور انٹرنیٹ ایجاد کیے تو اپنے قریبی دوست رشتہ داروں سے لاتعلقی بڑھ گئی۔ انسان کی معراج اور ترقی تو اس کے کردار کی پاکیزگی اور بلندی میں تھی جس میں ہم روز بروز پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ پھر ہم ترقی یافتہ کیسے ہوئے؟
Reconstruction of events
How it all started ⬇️
https://damadam.pk/comments/text/42208559/
Tsùnami states some historical facts
https://damadam.pk/comments/text/42209131/
And
https://damadam.pk/comments/image/42208706/
The Shaitan gives a reply to these facts via baseless allegations
https://damadam.pk/comments/text/42208689/
Tsùnami vows to defend the honour of our forefathers
https://damadam.pk/comments/text/42211446/
Tsùnami explains that some personal matters are hampering the development of a fitting reply
https://damadam.pk/comments/text/42225645/
Finally, "Mauj-e-Tsùnami bar Wiswaas-e-Shaitani" arrives
https://damadam.pk/comments/image/42268488/
مرزا غالب کہتے ہیں
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
معزز قارئین ذہنی امراض میں مبتلا افراد جہاں اپنی روزمرہ زندگی میں مختلف آزمائشوں سے گزر رہے ہوتے ہیں، وہیں ان کے سوچنے سمجھنے اور مشاہدے کی صلاحیت بھی بسا اوقات بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا و مافیہا کے بارے میں بسا اوقات ایسے ایسے خیالات اور نظریات رکھتے ہیں جنہیں حقیقی معنی میں "دیوانے کی بڑ" کہا جا سکتا ہے اور ان تصورات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر آپ کا سامنا دمادم پر یا کہیں بھی کسی ایسے شخص سے ہو جائے جو ذہنی اختلال کا شکار ہو تو اس کے ساتھ ہمدردی ضرور کیجیئے لیکن اس کی اوٹ پٹانگ باتوں کو سنجیدہ لینے سے پرہیز کیجیئے۔
https://damadam.pk/comments/image/42268488/
تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل دمادم کے ایک دیسی لبرل نے 295 سی سے متعلق میری ایک پوسٹ پر شہیدان ناموس رسالت کے خلاف بکواس کی اور پھر قائداعظم کو منافق اور علامہ اقبال کو عیاش ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس وقت میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ان شاءاللہ اس کی ہفوات کا منہ توڑ اور مفصل جواب دیا جائے گا۔ آج بحمدہ تعالی "موجِ سونامی بر وسواس شیطانی" کے عنوان سے اس کی بکواسات کا جواب شیئر کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرما لیجیئے۔

مان گئے بھئی۔۔۔۔ گنجے شیطان نے مودی سے اپنی یاری اور ہندوستان سے اپنی تجارت کا اس قدر پاس رکھا ہے کہ میزائلوں کی بارش اور ڈرونز کی یلغار بھی اپنے یار کے خلاف اس کا منہ نہیں کھلوا سکی۔۔۔۔ دوستی اور وفاداری ہو تو ایسی ہو کہ آپ کے گھر کو آپ کا یار آگ بھی لگا دے تو پھر بھی زبان سے حرف شکایت نہ نکلے۔۔۔۔۔
آج سے ٹھیک 419 سال قبل اہل اسلام کی خوش بختی عروج پر تھی جب غازئ اسلام، حامی سنت، ماحئ بدعت، شہنشاہ ہندوستان حضرت سلطان ابوالمظفر محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر رضی اللہ عنہ 15 ذوالقعدہ 1027ھ کو اس دنیا میں تشریف لائے۔ ان کا وجود مسعود ہندوستان کی تاریخ کے روشن ترین ایام کا سبب بنا اور کفر و ضلالت پر ان کی لگائی ہوئی ضربوں کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ سلطان معظم کے وصال کے ساڑھے تین صدیوں بعد بھی ان ضربوں کے درد نے بت پرستوں کو کس طرح بے چین کر رکھا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ نریندر مودی اپنی ہر دوسری تقریر میں سلطان معظم پر بھونکتا ہے، بالی وڈ کے گماشتے ان کے خلاف فلمیں بنا کر اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور ہندو دہشت گرد ان کے مزار مقدس کو شہید کرنے کے لیے ہر دوسرے دن ڈنڈے پکڑ کر احتجاج کرتے ہیں۔
چین کا شکریہ تو ہماری بیوقوف عوام اس طرح ادا کر رہی ہے جیسے ہماری سرحدوں کا دفاع انہی نے کیا ہو۔۔۔۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ہے نہ ہی یہاں کوئی کسی پر احسان کرتا ہے۔ چین کی پاکستان میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کی مصنوعات کی منڈی ہیں اور ہم نے اپنی مقامی صنعتوں کو اجاڑ کر چینیوں کو نفع پہنچانے کا سودا کر رکھا ہے۔ مجھے تو چینیوں سے سخت نفرت ہے اور اس نفرت میں حالیہ جنگی واقعات کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی کیونکہ چین نے مقبوضہ ترکستان میں میرے دس لاکھ اویغور مسلم بہن بھائیوں کو حراستی مراکز میں قید کر رکھا ہے جہاں انہیں زبردستی شراب پینے، خنزیر کھانے، اسلام سے دور رہنے اور اشتراکیت پر کاربند رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چین کے اویغور مسلمانوں پر مظالم پر پاکستانی میڈیا کی خاموشی بھی شرمناک ہے۔
کل ایک غیور نوجوان عامر عبدالرحمن چیمہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کی یاد منائی جائے گی جو ویسے تو جرمنی پڑھنے گیا تھا لیکن وہاں پر اس کے قیام کے دوران ایک اخبار کے ملعون مدیر کی جانب سے توہین رسالت کی گئی جسے اس کی غیرت ایمانی برداشت نہ کر سکی اور اس نے اس گستاخ کے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور بعد ازاں جرمن پولیس کی حراست میں اسے شہید کر دیا گیا۔۔۔۔
بھارتی زعفرانی ہندو غنڈے پاکستان کے بغض میں اتنے اتاؤلے ہو گئے ہیں کہ بھارت کے شہر حیدر آباد میں ایک ہندو ہی کی قائم کردہ 60 سالہ پرانی "کراچی بریانی" کی دکان کے بورڈ پر ڈنڈے برسا رہے ہیں کہ چلو پاکستان کے کراچی کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے، "کراچی بریانی" سے ہی بدلہ لے لیا جائے۔ اور اپنے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری بے چارے کو اتنی گالیاں دی ہیں کہ اس نے مجبورا اپنا ٹویٹر ہی ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ ہمارا مقابلہ انسانوں سے نہیں بلکہ وحشی درندوں سے ہے۔۔۔۔
اپنی فوج کو کرنے کے کام کرتے دیکھ کر کچھ پرانی خواہشیں پھر سے سر اٹھانے لگی ہیں۔۔۔۔
جب یہ بات واضح ہو جائے کہ ہم حق پر ہیں تو پھر موت کا خوف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ جو ہمارے ملک کے اندر ہی ایک جنگ چلتی رہتی ہے یہ بعض اوقات سفید اور سیاہ کی بجائے گرے سی نظر آنے لگتی ہے اور اس کا شرعی اور اخلاقی جواز کبھی کبھی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ان ہندو گماشتوں کے ساتھ لڑائی کا معاملہ تو بڑا سیدھا سادہ ہے۔ کسی سڑک پر حادثے میں یا دل، گردے خراب ہونے یا دماغ کی شریان پھٹنے کے بعد کسی ہسپتال کے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی بجائے میں کسی بھی دن گاؤ موتر پینے والے خسیس دشمن سے لڑائی کے دوران ملنے والی موت
کو ترجیح دوں گا۔۔۔۔۔ یہ لڑائی ہم نے شروع نہیں کی لیکن اب ان پلّوں کو پورا سبق سکھانا چاہیئے تاکہ یہ آئندہ اپنی اوقات میں رہیں۔
پاکستان زندہ باد
دور جدید میں میر جعفر اور میر صادق کا کردار کرنل صوفیہ جیسے لوگ ادا کر رہے ہیں۔ بے چاری کو گاؤ موتر پینے والوں نے لوگوں کو الو بنانے کے لیے کٹھ پتلی بنا کر میڈیا کے سامنے کھڑا کر رکھا ہے کہ دیکھو ہمارے ملک میں مسلمانوں کو بھی عزت و احترام دیا جاتا ہے حالانکہ ہندو دہشت گردوں کی جماعت بی جے پی کی سیٹ سے ایک بھی مسلمان بھارتی پارلیمان کا رکن نہیں۔ شاید اس صوفیہ قریشی کو بعد میں "گاؤ رکھشا" کے نام پر کسی دن بیف پلاؤ کھانے یا شاپر میں گوشت لے جانے کی پاداش میں ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا جائے۔۔۔۔۔
ادھر جنگ ہو رہی ہے اور ادھر 804 نمبر شیطان کے پجاریوں نے اپنا ڈرامہ لگا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پہلے ٹرمپ اور رچرڈ گرینل کے چرن چھوتے رہے۔ انہوں نے لال جھنڈی دکھا دی تو اب ان کا بس نہیں چل رہا کہ گاؤ موتر پینے والوں سے اکٹھ جوڑ کر لیں۔ جب تک کوئی بات نیک نیتی اور اہل وطن کے مفاد اور حقوق کی بات پر مبنی ہو تو اس کا جواز باقی رہتا ہے لیکن یہ اخلاق باختہ باتیں جو ان مفسدوں کا شیوہ ہیں، ان سے صرف اور صرف اسلام اور پاکستان کے دشمن ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اتنے بے غیرت ہیں کہ ان کو لگتا ہے کہ لوگ چار پانچ سال پرانی سب باتیں بھول چکے ہیں کہ ان کے مقید شیطان کا غزہ کے معاملے میں کیا کردار تھا یا 2019 میں دھمکیوں سے گھبرا کر پائلٹ واپس بھیج کر فخر کون کر رہا تھا۔۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain