یہاں سبھی کو اجازت نہیں ہے بیٹھنے کی
اگر میں پاس بٹھاوں تو چپ چاپ بیٹھا کر
ہم لوگ ہیں احساس کے وہ مردہ مکانات
آتے ہیں جدھر سنگِ ملامت بھی بہت کم
نہ گِلے رہے نہ گُماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاطِ وعدہ وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں
لوگوں کے رد عمل پہ غمزدہ ہونا چھوڑ دیں ،ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق ہی بات کرتا ہے🌸
شکست کھا کے بھی توہینِ زندگی نہ ہوئی!
ہزار کام ہوئے ، ہم سے خودکشی نہ ہوئی! 🖤
وہ قحط مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے !!!
غیبت نکال دیں تو فقط خاموشی بچے
میں اپنے آپ سے رہتاہوں دُور عید کے دِن..
اِک اجنبی سا تکلّف نئے لباس میں ہے..
تُو بھی آ جائے تو کیا خوب کٹے وقت اپنا
ویسے موجود ہیں میں اور خدا کمرے میں
🖤
کچھ فیصلے بلکل خود کشی کی طرح ہوتے ہیں بہت مشکل ،، سفاک ،، مایوس کن ،، دل شکن اور سخت_____ مگر کرنے پڑ جاتے ہیں روشنی یونہی نہیں ہوتی کچھ جلانا ضرور پڑتا ہے ۔۔!!
اتنے بھی رنگ نہ تھے مُصوّر کے ہاتھ میں
جتنے نقوش وہ میرے چہرے میں بھر گیا
اک حادثے نے روح میں وہ توڑ پھوڑ کی
جو بھی ذرا قریب ہُوا, وہ ہی ڈر گیا
حسرتیں دفن ہیں مجھ میں
خود کا خود مزار ہوں میں
ساری عمر کے سارے دکھ
اور سارے سُکھ اکٹھے کر کے
دکھ ، سکھ سے تفریق کرو تو
حاصل ، زنده رہنا ہو گا
حاصل جو اثبات نہیں ہے
پھر بھی کوئی بات نہیں ہے
جس نے کھیل سمجھ کر ہارا
اس کے حصے مات نہیں ہے !
جی میں آتا ہے کریں قید سبھی رنگوں کو
ایک ہنستی ہوئی تصویر بنا لیں اپنی!
ھم کہ مامُور ھیں ، ھر شخص کی دِلجوئی پر
ھم کِسے جا کے سُنائیں ، جو ھمارا دُکھ ھے...!
ہم وہ دست سیاہ بخت ہیں کہ جن کو
شوخ رنگو کی تمنا میں فقط راکھ ملی
کچھ باتیں تمہاری
کتابوں میں چھپا رکھی ہیں
جب تم سے بات ہو
دل خوشی سے جھومتا ہے
تم نے ایسا بھی کوئی دیکھا ہے_؟
جو تمہاری باتوں پہ مرتا ہو
پھر اس کی چاہت کی حد پتہ ہے کیا ہوگی__؟
سوچنے اور سمجھنے میں فرق ہوتا ہے
کیا تم مجھے سوچتے ہو ؟
سوچو گے تو سمجھو گے نا
سمجھنے کے بعد تمہارے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوگا
دیکھنا تم 🖤
میں کسی شخص کے مرنے پہ بھی غمگین نہیں
خاک اگر خاک میں ملتی ہے___ تو حیرانی کیا ؟
خط میں لکھتے ہو بہت دکھ ہے تمہیں ہجرت کا
یار جب جا ہی چکے ہو______ تو پشیمانی کیا
وہ شخص کتنا سدھر گیا ہے
کہ دل سے میرے اتر گیا ہے
تھا اک تعلق عذاب سا جو
وہ ٹوٹ کر اب سنور گیا ہے
جو ساتھ رہ کر بجھا بجھا تھا
بچھڑ کے کتنا نکھر گیا ہے
سکوں ہے اب جو نہ یہ خبر ہے
اِدھر گیا یا اُدھر گیا ہے
جو کوچہ کوچہ بھٹک رہا تھا
وہ آج اپنے ہی گھر گیا ہے
سرہانے رکھ کے تھا میں تو سویا
یہ ڈر نہ جانے کدھر گیا ہے
وہ وہم جس پہ میں مر مٹا تھا
میں جی اٹھا تو وہ مر گیا ہے
نہ ڈھونڈ اُس کو تو اِس کنارے
جو پار کب کا اتر گیا ہے
میں راہ سے وقت پہ ہٹا ہوں
سو وقت گزرا، گزر گیا ہے
ہے خوش نصیبی کمال ابرک
کہ رائیگاں یہ سفر گیا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain