اور پھر اللّٰہ ساری کھوئی ہوئی مسکراہٹیں واپس لے آتا ہے•
جمعہ مُبارک
❣️
وفی انفسکم افلا تبصر ون “
میں تمہارے اندر ہوں تم کیوں نہیں دیکھتے
“
❣️
اور جو چیزیں تہجد میں بھی مانگنے سے نہ ملیں
تو سمجھ جاؤ وہ تمہارے لیے بہتر نہیں۔
❣️
اس کے در پر سکون ملتا ہے اس کی عبادت سے نور ملتا ہے
جو جھک گیا اللہ کے سجدے میں اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے
❣️
وہ عشق نماز سکھا مجھ کو یارب۔۔
جس نماز میں صرف توں ملے مجھ کو
❣️
یادوں کا وہ موسم بھی کیسا عذاب ہے
نہ بھول پاتے ہیں، نہ جینے کا حساب ہے
💔
تم تھے تو بہاریں تھیں، رنگ تھے، نغمے تھے
اب دل میں صرف خامشی، اندھیرے، رنجھے تھے
💔
محبت جو کبھی عبادت سی لگی تھی
آج وہی زخموں کی شدت سی لگی تھی
💔
کہاں گئے وہ وعدے، وہ قسمیں تیری
کہ جو نبھانے کی تھی، رسمیں تیری
💔
میں رُوپ کا پُجاری ہوں
میں لفظ کا بھکاری ہوں
لیکن جہاں میں بستا ہوں
وہاں مندروں پر تارے ہوں
کیا عشق وہ نبھائیں گے؟
کیا حُسن کو سراہیں گے؟
تاریک جن کے چہرے ہیں
مقدّر ان کے جاگے ہیں
دعا مانگنے والوں سے کیا شِکوہ؟
کیا گلہ رقیبوں سے؟
یہ سانپ آستینوں میں
ہم نے خود ہی پَلے ہیں
نہ پوچھ پری زادوں سے
یہ ہجر کیسے جھیلا ہے
یہ تن بدن تو چھلنی ہے
اور رُوح پر بھی چلے ہیں
کیسے جان پاؤ گے
عشق میں کیا گزری ہے
کتنے زخم کھائے ہیں
کتنے دُکھ پلے ہیں
حُسن کے جزیروں میں
رُوپ کے کِناروں پر
ریشمی اندھیرے ہیں
سُرمئی اُجالے ہیں
اک ناز آفریں دِل پر
قبضہ جمائے بیٹھی ہے
جس کو نیل آنکھوں میں
نیل گُن سے پیالے ہیں
نہ پوچھ پری زادوں سے
یہ ہجر کیسے جھیلا ہے
یہ تن بدن تو چھلنی ہے
اور رُوح پر بھی چلے ہیں
کیسے جان پاؤ گے
عشق میں کیا گزری ہے
کتنے زخم کھائے ہیں
کتنے دُکھ پلے ہیں
خواہشوں کے جنگل میں
حسرتوں کے بستر پر
جسم تو گُلابی ہے
اور دِل سیاہ کالے ہیں
کبھی اظہار سے ڈرنا تیرے اِنکار سے ڈرنا تیری مُحبت میں مُجھے ڈَر کے سِوا کُچھ نہیں مِلا
💔
کھوئی ہوئی چیزوں سے زیادہ پائی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کیجیے
⭐
پیاسی بہت تھیں حسرتیں لو آج مر گئیں
بارش کا انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا
💔
کبھـی تــوڑا، کبھـی جـوڑا، کبھـی پھـر تـوڑ کر جوڑا!!*
*نـاکارہ کــر دیـا، `دل کــو` تیـری پیـونـد کاری نــــے!!!*
شہر میں کرتا تھا جو سانپ کے کاٹے کا علاج
اُس کے تہہ خانے سے سانپوں کے ٹھکانے نکلے
شہر میں کرتا تھا جو سانپ کے کاٹے کا علاج
اُس کے تہہ خانے سے سانپوں کے ٹھکانے نکلے
اکثر رشتے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ زبان کی تلخی، خاموشی کی شدت، اور انا کی دیواریں انسان کو اپنے ہی پیاروں سے دور کر دیتی ہیں۔ بعد میں پچھتاوا رہ جاتا ہے، مگر وقت گزرنے کے بعد ضد اور انا سے بچھڑے رشتے دوبارہ نہیں جڑتے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے دل کو غرور اور ضد سے پاک کریں۔ جھکنے سے رشتے بچتے ہیں، معافی دینے سے سکون ملتا ہے، اور انا کو قربان کرنے سے محبت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
زندگی میں بہت سے رشتے ایسے ہوتے ہیں جو خلوص، محبت اور قربانی سے پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن اکثر یہ رشتے "انا" اور "ضد" کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ انسان کی ضد اسے اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں وہ سچائی کو جانتے ہوئے بھی ماننے سے انکار کر دیتا ہے، اور انا دل کو اس قدر سخت بنا دیتی ہے کہ معافی مانگنا یا معاف کرنا دونوں ہی مشکل ہو جاتے ہیں۔
انا اور ضد کی بنیاد ہمیشہ خود پسندی پر ہوتی ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم جھک گئے تو ہماری عزت کم ہو جائے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھکنے والے ہی بڑے ہوتے ہیں۔ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ دل نرم رکھا جائے، مگر ضد دل کو پتھر اور انا روح کو بوجھلا دیتی ہے۔
ا
مجھے محبتوں سے کچھ ملا نہیں،
مجھے تم سے بالکل گِلا نہیں،
میری زندگی ہے ایسا اُلجھا سوال،
جو آج تک کسی سے سُلجھا نہیں،
میری ذات سے کسی کو تکلیف ہو،
میں نے تو کبھی یہ چاہا نہیں،
ہر ایک نے مجھ ہی کو درد دیا،
میرا درد تو کسی نے سمجھا نہیں،
کیوں میں راستوں کو الزام دوں؟
میرا ہمسفر ہی ساتھ چلا نہیں،
میں اُس کو بےوفا سا لگتا ہوں،
جسے خود وفا کا پتہ نہیں۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain