گاما چرسی رات کے کھانے کے لیے گھر والوں کیساتھ دسترخوان پہ بیٹھا۔ ابھی سب نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ صحن میں بندھا بکرا رسی تڑوا کر کمرے میں آگیا۔ گامے کے باپ نے چلا کر کہا " نکالو اس کمبخت کو۔۔۔۔۔!" یہ سنتے ہی خلاف توقع گاما اچھل کر کھڑا ہوگیا کہ بکرے کو نکال باہر کرے مگر اٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ لالٹین سے ٹکرایا اور اس کا شیشہ ٹوٹ گیا اور کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے گامے کا گھٹنا باپ کے جبڑے پہ لگا اور پھر دوسرا پاؤں سالن کی پتیلی میں جا پڑا، دوسرا پاؤں پانی کے جگ پہ لگا اور جگ گلاسوں پہ جا گرا جس سے ہر طرف گند مچ گیا۔ گامے کا باپ گھبرا کر بولا : "اوئے بکرے نو چھڈو، پہلاں اس نشئی نو پھڑو۔" (کسی بھی کردار سے مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔)
زمانہ کیا بدلا ھے کہ انسان ھی بدل گیا نہ رشتوں کا احساس نہ احسانات کا پاس جس نے جتنے احسان کئیے ھوں اس کو اتنے دکھ دو کہ وہ کسی پر اعتبار ھی کرنا چھوڑ دے آج کے انسان نے عقل کو دنگ کرنے والی عمارتیں کھڑی کر دی ھیں مگر اس کی ذہنی حالت آج بھی غاروں میں رھنے والے بندر نما انسانوں والی ھے