نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر لیے ہوئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں ( ابراہیم اور اسماعیل ) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا ، وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے گوشوں اور کونوں میں تکبیرات بلند کیں، پھر بغیر نماز پڑھے نکل آئے۔
سنن ابی داؤد حدیث نمبر 2027



قد افلح : سورۃ الفرقان : آیت 2
ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴿۲﴾
(ترجمہ ابن کثیر(فتح محمد :
وہی کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
Translation Kanzul Iman :
He for Whom is the kingdom of heavens and earth and He has not taken a son for Himself and He has no Partner in His Kingdom, and after creating every thing, He has ordained it on a right estimate.
قد افلح : سورۃ النور : آیت 31
(ترجمہ ابن کثیر(فتح محمد :
اورمومن عورتوں سےبھی کہہ دوکہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کےمقامات)کوظاہرنہ ہونےدیاکریں مگر جواس میں سےکھلارہتاہو اوراپنے سینوں پراوڑھنیاں اوڑھےرہاکریں اور اپنےخاونداورباپ اور سسراوربیٹوں اور خاوندکےبیٹوں اوربھائیوںاور بھتیجوں اوربھانجوں اوراپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈیوں غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جوعورتوں کی خواہش نہ رکھیں یاایسےلڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پراپنی زینت (اورسنگارکے مقامات) کو ظاہرنہ ہونےدیں اور اپنےپاؤں (ایسے طور سےزمین پر) نہ ماریں کہ (چھنکارکی آوازکانوں میں پہنچےاور) ان کاپوشیدہ زیورمعلوم ہوجائےاورسب الله کے آگے توبہ کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ
قد افلح : سورۃ النور : آیت 19
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾
ترجمہ مکہ :
جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں (١) الله سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
Translation Tafheem :
Verily, those who love that indecency should spread among the believers deserve a painful chastisement in the world and in the Hereafter. Allah knows, but you do not know.
ربما : سورۃ النحل : آیت 20
وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللهِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾
ترجمہ تفہیم القرآن :
اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں الله کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔
(ترجمہ ابن کثیر(فتح محمد :
اور جن لوگوں کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بنا سکتے بلکہ خود ان کو اور بناتے ہیں۔
Translation Tafheem :
Those whom they call upon beside Allah have created nothing; rather, they themselves were created;
ربما : سورۃ النحل : آیت 21
اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿٪۲۱﴾
تفسیر الکتاب :
[آیت کےالفاظ سےصاف ظاہر ہےکہ جن معبودان باطل کی تردید کی جا رہی ہے وہ نہ تو لکڑی یا مٹی کے بت ہیں اور نہ ہی جن و فرشتے۔ کیونکہ بتوں کے معاملے میں مرنے کے بعد زندہ کر کے اٹھائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہے جن و فرشتے تو وہ زندہ ہیں۔ لہٰذا جن ہستیوں کو حاجت روا سمجھ کر پکارا جاتا ہے وہ لامحالہ گزرے ہوئے انسان ہی ہوسکتے ہیں جیسے انبیاء اولیائے کرام اور بزرگان دین وغیرہ۔ جن کو نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں چنانچہ مشرکین عرب کے بہت سے معبود گزرے ہوئے انسان ہی تھے۔ بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ ود سواع یغوث یعوق نسریہ سب گزرے ہوئے سب ولی تھے۔
تلک الرسل سورہ آل عمران : آیت 80
وَ لَا یَاۡمُرَکُمۡ اَنۡ تَتَّخِذُوا الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرۡبَابًا ؕ اَیَاۡمُرُکُمۡ بِالۡکُفۡرِ بَعۡدَ اِذۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿٪۸۰﴾
ترجمہ مکہ :
اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنانے کا حکم دے کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا۔
لایحب الله : سورۃ المآئدہ : آیت 6
(ترجمہ بیان القرآن (اسرار :
اے اہل ایمان ! جب تم کھڑے ہو نماز کے لیے تو دھو لیا کرو اپنے چہرے اور دونوں ہاتھ بھی کہنیوں تک اور اپنے سروں پر مسح کرلیا کرو اور (دھو لیاکرو) اپنے دونوں پاؤں بھی ٹخنوں تک اور اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پھر تم اور زیادہ پاکی حاصل ‘ کرو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی کسی نشیبی جگہ سے ہو کر آئے یا تم نے عورتوں سے مقاربت کی ہو اور تمہیں پانی دستیاب نہ ہو تو ارادہ کرلو پاک مٹی کا تو اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو مل لو الله یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کر دے ) اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے تاکہ تم شکر گزار بن سکو
لایحب الله : سورۃ المآئدہ : آیت 3
(ترجمہ ابن کثیر(فتح محمد :
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کرمرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانوربھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔اوروہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیاجائے۔اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ(کے کام) رہیں۔آج کافرتمہارےدین سےناامید ہوگئے ہیں تو ان سےمت ڈرواور مجھی سے ڈرتے رہو۔(اور) آج ہم نے تمہارےلیےتمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والامہربان ہے۔
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 12
وَ الۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَ الرَّیۡحَانُ ﴿ۚ۱۲﴾
تفسیر مکہ :
١٢۔ ١ حب سے مراد وہ خوراک ہے جو انسان اور جانور کھاتے ہیں۔ خشک ہو کر اس کا پودا بھی بھس بن جاتا ہے جو جانوروں کے کام آتا ہے۔
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 11
فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ ۪ۙ وَّ النَّخۡلُ ذَاتُ الۡاَکۡمَامِ ﴿ۖ۱۱﴾
تفسیر ابن عباس :
(١١۔ ١٣) کہ اس زمین میں مختلف اقسام کے میوے ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل پر غلاب چڑھا ہوتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے بھوسا اور پتے والے غلے ہیں اور اس میں غذا کی چیز اور پھل بھی ہیں۔
Tafseer Ibn Abbas :
(Wherein) in the earth (are fruit) different kind of fruits (and sheathed palm-trees) which has foreskin or shells, or anything that has not sprouted up.
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 10
وَ الۡاَرۡضَ وَضَعَہَا لِلۡاَنَامِ ﴿ۙ۱۰﴾
(تفسیر بیان القرآن (اسرار :
آیت ١٠ { وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ ۔ } ” اور زمین کو اس نے بچھا دیا مخلوق کے لیے۔ “
ظاہر ہے مخلوق میں انسان بھی شامل ہیں اور جنات بھی ۔ نوٹ کیجیے کہ پہلے آسمان ‘ سورج اور چاند کا ذکر ہوا ہے اور اب زمین کا ۔ گویا ترتیب تدریجاً اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہے۔
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 9
وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ ﴿۹﴾
(تفسیر بیان القرآن (اسرار :
آیت ٩ ” اور قائم رکھو وزن کو انصاف کے ساتھ اور میزان میں کوئی کمی نہ کرو۔ “
کسی بھی نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اس نظام کے اندر عدل قائم رکھنا یعنی اس کی ہرچیز کو اس کی اصل جگہ پر رکھنا ضروری ہے ‘ کیونکہ کسی بھی قسم کی کمی بیشی نظام میں خرابی اور عدم توازن کا باعث بنتی ہے۔ اسی لیے زیادتی سے بھی منع کردیا گیا (لَا تَطْغَوْا) اور کمی کرنے سے بھی روک دیا گیا (لَا تُخْسِرُوا) ۔ خالق کائنات نے اس کائنات کا پورا نظام توازن اور عدل و قسط پر قائم کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اپنے دائرہ اختیار میں اسی طرح توازن اور عدل وقسط کو ملحوظ رکھے۔ اس میزان میں کوئی خرابی نہ پیدا کرے ‘
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 8
اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ ﴿۸﴾
تفسیر ابن عباس :
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک روکھو یا یہ کہ اپنی زبانوں کو سچائی کے ساتھ ٹھیک رکھو اور تول میں کمی مت کرو کہ اس سے لوگوں کے حق مارنا شروع کردو
(تفسیر بیان القرآن (اسرار :
آیت ٨{ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْْمِیْزَانِ ۔ } ” تاکہ تم میزان میں زیادتی مت کرو۔ “
اس کائناتی توازن کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں رہتے ہوئے تم بھی عدل و انصاف پر قائم رہو۔
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾
(تفسیر بیان القرآن (اسرار :
آیت ٧{ وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ۔ } ” اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کی۔ “
یہاں میزان سے مراد کائناتی نظام کے اندر پایا جانے والا مربوط اور خوبصورت توازن (cosmic balance) ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات قائم ہے۔ یہ توازن تمام اجرام سماویہ کے اندر موجود کشش ثقل (gravitational force) کی وجہ سے قائم ہے۔ تمام اجرام فلکی اس کشش کی وجہ سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ہر ُ کرے ّکا دوسرے کرے سے فاصلہ ‘ اس کی کشش کی طاقت کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ اگر کہیں یہ فاصلہ ایک طرف سے معمولی سا کم ہوجائے اور دوسری طرف سے معمولی سا بڑھ جائے تو یہ سارا نظام تلپٹ ہوجائے اور تمام کرے آپس میں ٹکرا جائیں۔
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 6
وَّ النَّجۡمُ وَ الشَّجَرُ یَسۡجُدٰنِ ﴿۶﴾
تفسیر ابن عباس :
اور بےتنا کے درخت اور تنا دار درخت اللہ کے فرمان بردار ہیں، نجم ہر اس درخت کو کہتے ہیں جو کھڑا نہ ہوسکے بلکہ زمین پر پھیلے اور شجر تنا دار درخت کو کہتے ہیں
Tafseer Ibn Abbas :
(The najm and the trees adore) the stars and the trees prostrate to the Beneficent; and it is also said that najm refers to vegetation that has no stalks.
قال فماخطبکم : سورۃ الرحمن : آیت 5
اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ ﴿۪۵﴾
Tafseer Ibn Abbas :
(The sun and the moon are made punctual) their orbits are measured; and it is also said that this means: they are suspended half way between heaven and earth; and it is also said that this means: they both will be taken to task and have a lifespan like the lifespan of human beings.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain