-" جس کو رہتی تھی سَدا فِکر میری ، دیکھو آج وہ میرے دِل کی اُداسی پہ ، بڑا راضی ہے کچھ تو معلوم ہو آخر ، تیرا معیار ہے کیا؟ مجھ سے ہر شخص یہاں ، تیرے سِوا راضی ہے
ایسا مت کر ویسا مت کر اس سے کہنا چھوڑ دیا پتہ نہیں کیا سوجھی میں نے یہ دکھ سہنا چھوڑ دیا میرے کہتے رہنے پر ہم ساتھ رہے اور پھر ایک دن میں نے کہنا چھوڑ دیا اور اس نے رہنا چھوڑ دیا ۔
ایک دن یُونہی ہم دونوں بیٹھے گَپ شَپ لگا رہے تھے میں نے ایک شعر گُنگُنایا تو شاید اُس کے ذہن میں کیا بات آئی...!! کہنے لگی یہ تُم شاعر لوگ ہمیشہ شاعری میں مُذکر کا صیغہ کیوں استعمال کرتے ہو...؟؟ عورت کو کیوں نہیں شامِل کرتے...؟؟ تو میں نے اُسے گُھورتے ہُوۓ کہا...!! بات تو تُمہاری ٹِھیک ہے...!! چلو سُنو پِھر...!! میں نے مومن خان مومن کا یہ شعر سُنایا اور اُس میں مُذکر کی جگہ مونث کا صیغہ استعمال کیا...!! تُم میرے پاس ہوتی ہو گویا...!! جب کوئی دُوسری نہیں ہوتی...!! اور پِھر جو ہوا وہ اُردو ادب کی الگ داستان ہے...🙂🖤