اسے کہو کہ وہ مجھے پتھر مارے
وہی پتھر جو اس کے سینے میں ہیں
آئینہ دیکھ کے وہ کہنے لگے آپ ہی آپ
ایسے اچھے کی کرے کوئی بُرائی کیوں کر
داغ دہلوی
تُو مجھے خواب میں ملتا ہے ، یہی کافی ہے
میں تجھے سامنے دیکھوں گا تو ، مَر جاؤنگا
یہ جو غربت میں اداسی کا سبب ھے مت پوچھ
مجھ سے چھوٹا بھی مجھے چار سنا دیتا ہے
رونے کو ایک عُمر پڑی ہے__سو جانِ جاں
تصویر بن رہی ہے____چلو مُسکرائیں ہم
چہرے کی بات چھوڑ کہ ہم اسکے ہاتھ میں
شائد کوئی لکیر تھی جس کے فقیر تھے
سورج کی طرح چمکنے
سے پہلے سورج کی طرح جلنا پڑتا ہے۔
#ابوالکلام
یوم پیدائش 11 نومبر 1888
بے جھجک آ کے مِلو، ہنس کے مِلاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں مِلانا دل کا
تو مجھے ڈھونڈ یا میں تمہیں ڈھونڈوں
کوئی ہم میں سے رہ گیا ہے کہیں
وہ ہمیں بھول گیا ہوتو عجب کیا ہے فراز
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
♥ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجئے پھر سمجھئیے زندگی کیا چیز ہے ♥
♥ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ھو گئیں
آج جانا پیار کی جادو گری کیا چیز ہے ♥
♥بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کی شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے♥
♥ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وه سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے ♥
💚❣️❣️
ایسا نہیں فقط لب و رخسار ہیں پسند
اس پیکرِ جمال کا ہر انگ خوب ہے
جب سے لوگ بزرگوں کی عزت کم کرنے لگے ہیں، تب سے لوگ اپنے دامن میں دعائیں کم اور دوائیں زیادہ بھرنے لگے ہیں۔
آئینہ دیکھ کے یہ دیکھ سنورنے والے
تجھ پہ بے جا تو نہیں مرتے یہ مرنے والے
آنکھ کے شِرک سے بھی خود کو بچائے رکھا
تیری فرقت میں کہیں اور نہ دیکھا ہم نے.!
داغؔ دہلوی
ہم لوگ کہ ہیں ماؤں سے بِچھڑے ہوئے بچّے
حِصّے میں کسی کے بھی مُحبّت نہیں آئی
لرزے بھی نہیں شہر کے حساس در و بام
دِل راکھ ہوئے پھر بھی قیامت نہیں آئی
رونقِ کُوچہ و بازار ہیں تیری آنکھیں۔۔
لوگ سَودا ہیں خریدار ہیں تیری آنکھیں۔۔
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو
جگمگاتے ہوئے لمحوں سے گریزاں کیوں ہو
انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف
چوڑیوں پر بھی کئی طنز کئے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کَسے جائیں گے
پھر کہیں گے کہ ہنسی میں بھی خفا ہوتی ہیں
اب تو روحی کی نمازیں بھی قضا ہوتی ہیں
لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں مرا ذکر بھی لے آئیں گے
ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے
چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے
بات نکلے گی تو. پھر دور تلک جائے گی
وہ کہہ رہے تھے بزم میں خنجر نکال کر
اُس دل کو لاؤ جس میں امیدِ وصال ھے
تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے
تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک
خواب بن بن کے میرے ذہن میں لہراتی ہے
رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے
تیرے انفاس، ترے جسم کی آنچ آتی ہے
میں سلگتے ہوئے رازوں کو عیاں تو کر دوں
لیکن ان رازوں کی تشہیر سے جی ڈرتا ہے
رات کے خواب اُجالے میں بیاں تو کر دوں
ان حسیں خوابوں کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے
تیری سانسوں کی تھکن تیری نگاہوں کا سکوت
درحقیقت کوئی رنگین شرارت ہی نہ ہو
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم، وہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو
سوچتا ہوں کہ تجھے پا کے میں جس سوچ میں ہوں
پہلے اس سوچ کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں
میں تیرے شہر میں انجان ہوں پردیسی ہوں
تیرے الطاف کا مفہوم سمجھ لوں تو کہوں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain