قفس کا قیمتی پنچھی ہوں سو خریدتے وقت !!!
مجھے اڑا کے بھی دیکھا گیا ____گرا کے بھی
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتیں حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئی
خلد : جنت
واں: وہاں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
فیض احمد فیض
یہ شوق ، یہ ارمان ، یہ حسرت ، یہ تمنا
کیا ہو میرے قابو میں تم آجاو آج رات
( داغ دھلوی )
جال اس زلف پریشاں نے بچھایا اے دل
لے سنبھل پھر یہ نہ کہنا خبر دار نہ تھا
داغ دہلوی
داغ۔
ہنس ہنس کے یہ کہتے ہیں شبِ وصل وہ مجھ سے۔
چھیڑو گے تو پھر ہم سے ملاقات نہ ہوگی۔
که خلګ له تامتاثره کیږي نوته تکبرمه کوه
بلکې دخپل رب شکراداکړه
چي ستاعیبونه یې پټ کړی
اوته یې په خلګو کي معززګرځولی یې
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
اردو ترجمہ: اگر آپ سے لوگ متاثر ہوتے ہیں تو تکبر نا کریں اپنے رب کا شکر ادا کریں کیونکہ اس نے آپ کے تمام عیب چھپادئے لوگوں سے اور آپ کو معزز بنادیا
If people are affected by you, then be proud.
Rather, thank your Lord.
To hide the flaws.
And you are respected among the people
استاد رو رہا ہے
کہ میرے بچے (شاگرد) شہید ہو گئے
اور شاگرد خوش ہو رہے ہیں کہ ہمارا استاد بچ گیا ہے۔
دینی مدارس کی تربیت
د قارون او د فرعون سره مو ژوند دی،
ماشومان يې راله مړه کړل بې حسابه ـ😢😢
#peshawar_blost
We live with Qaroon and Pharaoh.
They killed my kids 😢😢
یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے.. ، "وہی فصلِ گُل کا ماتم"
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
اس قَدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھّا ہے
دِل کے رُخسار پہ اِس وَقت تِری یاد نے ہات
یُوں گُماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صُبحِ فِراق
ڈھل گیا ہِجر کادِن آ بھی گئی وَصل کی رات
منزلیں لاکھ کٹھن آئیں گزر جاؤں گا
حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مر جاؤں گا
چل رہے تھے جو میرے ساتھ کہاں ہیں وہ لوگ
جو یہ کہتے تھے کہ رستے میں بکھر جاؤں گا
در بدر ہونے سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا
گھر مجھے راس نہ آیا تو کدھر جاؤں گا
یاد رکھے مجھے دنیا تری تصویر کے ساتھ
رنگ ایسے تری تصویر میں بھر جاؤں گا
لاکھ روکیں یہ اندھیرے مرا رستہ لیکن
میں جدھر روشنی جائے گی ادھر جاؤں گا
راس آئی نہ محبت مجھے ورنہ ساقیؔ
میں نے سوچا تھا کہ ہر دل میں اتر جاؤں گا
ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمھارا یہ کہانی پھر سہی
نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی
کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں
کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی
قدم دشتِ محبت میں نہ رکھ میر
کہ سر جاتا ہے گام اوّلیں پر۔
اشکِ ناداں سے کہو بعد میں پچھتائیں گے
آپ گِر کر میری آنکھوں سے کدھر جائیں گے
اپنے لفظوں کو تَکلُم سے گِرا کر جانا
اپنے لہجے کی تھکاوٹ میں بِکھر جائیں گے
تُم سے لے جائیں گے ہم چھین کے وعدے اپنے
ہم تو قسموں کی صداقت سے بھی ڈر جائیں گے
اِک تیرا گھر تھا میری حدِ مُسافت لیکن
اب یہ سوچا ہے کہ ہم حد سے گُزر جائیں گے
اپنے افکار جلا ڈالیں گے کاغذ کاغذ
سوچ مَر جاۓ گی تو ہم آپ بھی مَر جائیں گے
اِس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تُم سے ملے
ہم نے سوچا ہے کہ ہم تُم سے بچھڑ جائیں گے
داغ دنیا نے دیئے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے
ماں کی آغوش میں کل، موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے گئے
ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے
اک نیا زخم ملا اک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پُرانے سے ملے
ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لیے قصہء غم
ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
یہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آئو بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں
سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس کہوں
خیال دل وہ میرے صبح و شام کس کا تھا
وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بےوفا جانا
خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا
ہراک سے کہتے ہیں کیا داغ بےوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain