جانے کس کی آرزو نے گُل کھِلائے اس قدر
میری آنکھوں میں سدا خوابوں کا گلدستہ رہا
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی!
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا!
شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
فیض صاحب
آپ سے اب نہ بنے گا کوئی سودا اپنا
واپس دیجیے دلِ بیتاب ہمارا ہم کو
سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں
سیرِ گلشن وہ کریں شوق سے، تنہا نہ کریں
اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محو جفا
کچھ بھی ہو جائے مگر تری تمنّا نہ کریں
میں ہوں مجبور تو مجبور کی پرسش ہے ضرور
وہ مسیحا ہیں تو بیمار کو اچھا نہ کریں
دردِ دل اور نہ بڑھ جائے تسلی سے کہیں
آپ اس کام کا زنہار ارادہ نہ کریں
شکوہء جور تقاضائے کرم عرض وفا
تم جو مل جاؤ کہیں ہم کو تو کیا کیا نہ کریں
نورِ جاں کے لئے کیوں ہو کسی کامل کی تلاش
ہم تری صورت زیبا کا تماشا نہ کریں
حال کھل جائےگا بیتابیء دل کا حسرت
بار بار آپ انہیں شوق سے دیکھا نہ کریں...!
بہت زیادہ مضبوط دِکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ آپ کو بھی تسلی کی ضرورت ہے ۔۔۔
ناراض ہو خدا تو کریں بندگی سے خوش
معشوق روٹھ جائے تو کیونکر منائیں ہم
ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
جب یہ سُنا کہ داغ کا آزار کم ہوا
زانو پہ ہاتھ مار کے بولے"ستم ہوا
وصف جنت ـــ جو کیا ان سے بگڑ کر بولے
کبھی مجھ پر ہے ــ کبھی حور پر ــ اچھا دل ہے.....!!!
ڈرتی ہوئی وہ آئی مرے لگ گئی گلے!!
کوچے میں بھونکتے ہوئے کتے کی خیر ہو
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں
(فیض احمد فیضؔ)
لب شیریں کا بوسہ دیجئے
زہر لگتی ہے گر ہماری بات
داغ
هر سړی په یوې چارې خدای مشغول کړ
زه مشغول کړم خدای د ترکو په ثنا
(عبدالرّحمان بابا)
خُدا نے ہر شخص کو کِسی کام میں مشغول کیا۔۔۔ [اور] مجھ کو خُدا نے دِلبَرانِ زیبا کی مدح و سِتائش میں مشغول کِیا۔۔۔ (یعنی جِس طرح خُدا نے ہر اِنسان کے مُقَدَّر میں کوئی کار یا کوئی پیشہ لِکھ دیا ہے جِس میں وہ تا حیات مشغول و سرگرم رہتا ہے، اُسی طرح خُدا نے میری تقدیر میں یہ کام لِکھا ہے اور میرا پیشہ و کار یہ بنایا ہے کہ مَیں حَسِین و جمیل دِلبَران و محبوبان کی سِتائش کرتا رہوں۔)
زه دې نوم لیکم په لاس.
لاس د ټولې دنيا خلاص..
😉😉
