سب سے چھپتے ہیں چھپیں، مجھ سے تو پردا نہ کریں سیرِ گلشن وہ کریں شوق سے، تنہا نہ کریں اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محو جفا کچھ بھی ہو جائے مگر تری تمنّا نہ کریں میں ہوں مجبور تو مجبور کی پرسش ہے ضرور وہ مسیحا ہیں تو بیمار کو اچھا نہ کریں دردِ دل اور نہ بڑھ جائے تسلی سے کہیں آپ اس کام کا زنہار ارادہ نہ کریں شکوہء جور تقاضائے کرم عرض وفا تم جو مل جاؤ کہیں ہم کو تو کیا کیا نہ کریں نورِ جاں کے لئے کیوں ہو کسی کامل کی تلاش ہم تری صورت زیبا کا تماشا نہ کریں حال کھل جائےگا بیتابیء دل کا حسرت بار بار آپ انہیں شوق سے دیکھا نہ کریں...!
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں (فیض احمد فیضؔ)
هر سړی په یوې چارې خدای مشغول کړ زه مشغول کړم خدای د ترکو په ثنا (عبدالرّحمان بابا) خُدا نے ہر شخص کو کِسی کام میں مشغول کیا۔۔۔ [اور] مجھ کو خُدا نے دِلبَرانِ زیبا کی مدح و سِتائش میں مشغول کِیا۔۔۔ (یعنی جِس طرح خُدا نے ہر اِنسان کے مُقَدَّر میں کوئی کار یا کوئی پیشہ لِکھ دیا ہے جِس میں وہ تا حیات مشغول و سرگرم رہتا ہے، اُسی طرح خُدا نے میری تقدیر میں یہ کام لِکھا ہے اور میرا پیشہ و کار یہ بنایا ہے کہ مَیں حَسِین و جمیل دِلبَران و محبوبان کی سِتائش کرتا رہوں۔)