*اُن لوگوں سے مَت ڈَرئیے،*
*جو اپنا بَدلہ لینا جانتے ہیں،*
*بلکہ!*
*اُن لوگوں سے ڈَرئیے،*
*جو اپنا مُعاملہ اللّٰه کریم پر چھوڑ دیتے ہیں🌷*🍂🥀
از قلم وفا نور آفریدی
جب کوئی لڑکی کسی سے نکاح کی بات کرتی ہے۔ تو وہ دل سے بولتی ہے۔ سچائی، حیاء اور عزت کے ساتھ۔ عورت نکاح کے نام پر کبھی جھوٹ نہیں بولتی،مگر بہت سے مرد اسی پاکیزہ رشتے کے نام پر صرف کھیل کھیلتے ہیں۔
*یـــاد رکھیـــــــں!*🍃❤️
نکاح عورت کے لیے محبت کا سب سے بلند اظہار ہے۔ اور اگر کوئی مرد اسے سمجھ لے،تو وہ صرف شریکِ حیات نہیں، جنت کی طرف سفر کا ساتھی بن جاتا ہے۔
✍️ از قلم وفا نور آفریدی
*زنــــــدگی کیا ہے ؟*
زندگی ایک خواب ہے۔
کبھی بھی موت دروازہ کٹکٹھا کے آنکھ کھلوا دے گی ہماری۔ اور وہ کبھی بھی بتا کر نہیں آتی۔
تو ہم کس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں؟ کس دھن میں مگن ہیں؟
کیوں نہیں جاگ جاتے؟
کیوں لوگوں کی سوچتے رہتے ہیں؟
کیوں نہیں سوچتے ہر کام کو کرنے سے پہلے کے اللہ پاک کیا سوچے گے ؟
انکو کیا جواب دیں گے؟
*اللہ پاک ہمیں ہدایت دیں اور آخرت کی اتنی تیاری کرنے کی توفیق دیں تا کہ اللہ پاک کی رحمت سے ہم بخش دیۓ جاۓ-*
از قلم وفا نور آفریدی
بارشوں کا موسم ہے
روح کی فضاؤں میں
غم زدہ ہواؤں میں
بے سبب اداسی ہے
اس عجیب موسم میں
بے قرار راتوں کی
بے شمار باتیں ہیں
ان گنت فسانے ہیں
جو بہت خاموشی سے
دل پر سہتے پھرتے ہیں
اور بہ امر مجبوری
سب سے کہتے پھرتے ہیں
آج موسم اچھا ہے
آج ہم بہت خوش ہیں
از قلم وفا نور آفریدی
*جب تم کسی کو اپنے لیے مُخلِص پالو…!! تو فرض ھے تُمہارا کہ تم باقی ساری دُنیا سے اندھے ھوجاؤ*✅
🌹
از قلم وفا نور آفریدی

آپﷺ لمبی خاموشی اختیار کیے رکھتے، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے۔ ہمیشہ غوروفکر میں ڈوبے رہتے تھے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ❤️
از قلم وفا نور آفریدی
یا اللہ بارش ہو جائے
ہوا طوفان نہ آئے
از قلم وفا نور آفریدی
اللہ پاک نے ہر انسان کو ایک ’’زمانہ‘‘ عطا فرمایا… اکثر لوگ اپنا یہ زمانہ ضائع کر دیتے ہیں تو وہ خسارے میں جا پڑتے ہیں…
قسم ہے ’’زمانے‘‘ کی تمام انسان خسارے میں ہیں (القرآن) …
مگر جو لوگ 4 کاموں میں اپنا زمانہ خرچ کرتے ہیں… وہ زمانے کے مالک بن جاتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ ابد الآباد کیلئے زندہ اور کامیاب ہوجاتے ہیں…… 4 کام کیا ہیں؟
1۔ ایمان…
2۔ اعمال صالحہ…
3۔ حق کی دعوت…
4۔ حق پر صبر کی دعوت…
از قلم وفا نور آفریدی
انہیں ان مہاجرین سے معلوم ہوا تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس وقت حرم میں تھے۔ یہ لوگ آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔
ادھر قریش مکہ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے کان آپ ﷺ اور اس وفد کی بات چیت کی طرف لگادیے۔
جاری ھے ان شاء اللہ
انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی ۔صرف اللہ کا نام باقی تھا ۔اس طرح مشرک اس. معاہدے سے باز آگئے۔یہ معاہدہ جس شخص نے لکھا تھا، اس کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔
معاہدہ کا یہ حال دیکھنے کے بعد قریشی لوگ شعب ابی طالب پہنچے۔ انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے کہا:
" آپ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں ۔ وہ معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔"
اس طرح تین سال بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور ظلم کا یہ باب بند ہوا۔
اس واقعے کے بعد نجران کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔نجران ان کی بستی کا نام تھا۔ یہ بستی یمن اور مکہ کے درمیان واقع تھی اور مکے سے قریباً سات منزل دور تھی۔ اس وفد میں بیس آدمی تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں انہیں ان مہاجرین سے معلوم
کسی طرح. پہنچا دیا کرتے تھے، ایسے میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ ﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔معاہدے کے الفاظ میں سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہيں بچا، آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے یہ بات ابو طالب کو بتائی، ابوطالب فوراﹰ گئے اور قریش کے لوگوں سے کہا ۔
تمہارے عہد نامے کو دیمک نے چاٹ لیا ہےاور یہ خبر مجھے میرے بھتیجے نے دی ہے۔اس معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، اگر بات اسی طرح ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہوجاتاہے، لیکن اگر تم اب بھی باز نہ آئے تو پھر سن لو،. اللہ کی قسم! جب تک ہم میں آخری آدمی بھی باقی ہے، اس وقت تک ہم محمد ﴿صلی اللہ ﷺ ﴾کو، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔،،
یہ سن کر قریش نے کہا:
“ہمیں تمہاری بات منظور ہے… ہم معاہدے کو دیکھ لیتے ہیں ۔”
انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس
ہاں ! موجود ہے۔" جواب میں حضرت جعفر بولے ۔
"وہ مجھے پڑھ کر سنائیں ۔"نجاشی بولا۔
اس پر انہوں نے قرآن کریم سے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات پڑھیں ۔ آیات سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نجاشی بولا:
"ہمیں کچھ اور آیات سناؤ۔"
اس پر حضرت جعفر نے کچھ اور آیات سنائیں ۔تب نجاشی نے کہا
"اللہ کی قسم! یہ تووہی کلام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لےکر آئے تھے ۔خداکی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔"
اس طرح قریشی وفد ناکام لوٹا ۔دوسری طرف مکہ کے مسلمان اسی طرح گھاٹی شعب ابی طالب ميں مقیم تھے ۔وہ اس میں تین سال تک رہے، یہ تین سال بہت مصیبتوں کےسال تھے، اسی گھاٹی میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ پیدا ہوئے، یہ حالات دیکھ کر کچھ نرم دل لوگ بھی غمگین ہوتے تھے، ایسے لوگ کچھ کھانا پینا ان حضرات تک کسی نہ کسی طرح. پہنچا دیا
خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم دیا، اسی طرح گندی باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی ، ان پر ایمان لائے اور جو تعلیمات وہ لے کر آئے، ان کی پیروی کی۔ بس اس بات پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی تاکہ ہمیں پھر پتھروں کی پوجا پر مجبور کر سکے۔ ان لوگوں نے ہم پر بڑے بڑے ظلم کیے۔ نئے سے نئے ظلم ڈھائے، ہمیں ہر طرح تنگ کیا۔ آخر کار جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ ہمارے دین کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تو ہم آپ کی سرزمین کی طرف نکل پڑے، ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا۔ ہم تو یہاں یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔"
حضرت جعفر ؓ کی تقریر سن کر نجاشی نے کہا:
"کیا آپ کے پاس اپنے نبی پر آنے والی وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟"
بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے۔پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہمارا ہر طاقت ور آدمی،کمزور کو دبا لیتا تھا۔ یہ تھی ہماری حالت، پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا،جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں ، یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں ۔ ہم ان کا حسب نسب، ان کی سچائی اور پاک دامنی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں ، اس کی عبادت کریں اور یہ کہ اللہ کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ،ہم انہیں چھوڑ دیں ۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ نماز پڑھیں ، زکوٰۃ دیں ، روزے رکھیں ۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے،امانت پوری کرنے، رشتے داروں کی خبر گیری کرنے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے، برائیوں اور خون بہانے سے بچ
یہ تو وہی کلام ہے
اس کے بعد حضرت جعفر ؓ نے کہا:
"اللہ کے رسول نے ہمیں نماز کا حکم دیا ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔"
اس وقت حضرت عمرو بن عاص ؓ نے نجاشی کو بھڑکانے کے لیے اس سے کہا:"یہ لوگ ابن مریم یعنی عیسٰی علیہما السلام کے بارے میں آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں ۔ یہ انہیں اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔"
اس پر نجاشی نے پوچھا:
"تم لوگ عیسیٰ ابن مریم اور مریم علیہما السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟"
حضرت جعفر ؓ نے کہا:
"ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یعنی کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں ۔"
پھر حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے بادشاہ کے دربار میں یہ تقریر کی:
"اے بادشاہ!ہم ایک گمراہ قوم تھے، پتھروں کو پوجتے تھے،مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، بے حیائی کے کام
نجاشی سے میں بات کروں گا۔"
ادھر نجاشی نے تمام عیسائی عالموں کو دربار میں طلب کرلیا تھا تاکہ مسلمانوں کی بات سن سکیں ۔ وہ اپنی کتابیں بھی اٹھالائے تھے۔
مسلمانوں نے دربار میں داخل ہوتے وقت اسلامی طریقے کے مطابق سلام کیا، بادشاہ کو سجدہ نہ کیا، اس پر نجاشی بولا:
" کیا بات ہے،تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ "
حضرت جعفر ؓ فوراً بولے:
" ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، الله تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک رسول بھیجے ہیں ... اور ہمیں حکم دیا کہ الله کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو، اللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ہم نے آپ کو وہی سلام کیا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔"
نجاشی اس بات کو جانتا تھا، اس لیے کہ یہ بات انجیل میں تھی۔
ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آپ کی سرزمین پر آئے ہیں ۔یہ لوگ ہم سے اور ہمارے معبودوں سے بیزار ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے آپکا دین بھی اختیار نہیں کیا۔یہ ایک ایسے دین میں داخل ہوگئے ہیں ، جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ اب ہمیں قریش کے بڑے سرداروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں ۔"
یہ سن کر نجاشی نے کہا:
" وہ لوگ کہاں ہیں ۔"
انہوں نے کہا:
" آپ ہی کے ہاں ہیں ۔"
نجاشی نے انہیں بلانے کے لیے فوراً آدمی بھیج دیے۔ایسے میں ان پادریوں اور دوسرے سرداروں نے کہا:
" آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں ۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ زیادہ جانتے ہیں ۔"
نجاشی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا:
" پہلے میں ان سے بات کروں گا کہ وہ کس دین پر ہیں ۔"
اب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
" نجاشی
ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح فرمایا ۔
ان مسلمانوں کو حبشہ میں بہترین پناہ مل گئی، اس بات سے قریش کو اور زیادہ تکلیف ہوئی ۔انہوں نے ان کے پیچھے حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ اور عمارہ بن ولید کو بھیجا تاکہ یہ وہاں جاکر حبشہ کے بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں (حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ بعد میں مسلمان ہوئے) یہ دونوں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے بہت سے تحائف لے کر گئے ۔بادشاہ کو تحائف پیش کیے ۔تحائف میں قیمتی گھوڑے اور ریشمی جبے شامل تھے ۔بادشاہ کے علاوه انہوں نے پادریوں اور دوسرے بڑے لوگوں کو بھی تحفے دیے...تاکہ وہ سب ان کا ساتھ دیں ۔بادشاہ کے سامنے دونوں نے اسے سجدہ کیا، بادشاہ نے انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھالیا ۔اب انہوں نے بادشاہ سے کہا:
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain