اللہ پاک نے ہر انسان کو ایک ’’زمانہ‘‘ عطا فرمایا… اکثر لوگ اپنا یہ زمانہ ضائع کر دیتے ہیں تو وہ خسارے میں جا پڑتے ہیں… قسم ہے ’’زمانے‘‘ کی تمام انسان خسارے میں ہیں (القرآن) … مگر جو لوگ 4 کاموں میں اپنا زمانہ خرچ کرتے ہیں… وہ زمانے کے مالک بن جاتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ ابد الآباد کیلئے زندہ اور کامیاب ہوجاتے ہیں…… 4 کام کیا ہیں؟ 1۔ ایمان… 2۔ اعمال صالحہ… 3۔ حق کی دعوت… 4۔ حق پر صبر کی دعوت… از قلم وفا نور آفریدی
انہیں ان مہاجرین سے معلوم ہوا تھا جو مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس وقت حرم میں تھے۔ یہ لوگ آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ ادھر قریش مکہ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے کان آپ ﷺ اور اس وفد کی بات چیت کی طرف لگادیے۔ جاری ھے ان شاء اللہ
انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس کو واقعی دیمک چاٹ چکی تھی ۔صرف اللہ کا نام باقی تھا ۔اس طرح مشرک اس. معاہدے سے باز آگئے۔یہ معاہدہ جس شخص نے لکھا تھا، اس کا ہاتھ شل ہوگیا تھا۔ معاہدہ کا یہ حال دیکھنے کے بعد قریشی لوگ شعب ابی طالب پہنچے۔ انہوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں سے کہا: " آپ اپنے اپنے گھروں میں آجائیں ۔ وہ معاہدہ اب ختم ہوگیا ہے۔" اس طرح تین سال بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور ظلم کا یہ باب بند ہوا۔ اس واقعے کے بعد نجران کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ عیسائی تھے۔نجران ان کی بستی کا نام تھا۔ یہ بستی یمن اور مکہ کے درمیان واقع تھی اور مکے سے قریباً سات منزل دور تھی۔ اس وفد میں بیس آدمی تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں انہیں ان مہاجرین سے معلوم
کسی طرح. پہنچا دیا کرتے تھے، ایسے میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ ﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے لکھے ہوئے معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔معاہدے کے الفاظ میں سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہيں بچا، آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے یہ بات ابو طالب کو بتائی، ابوطالب فوراﹰ گئے اور قریش کے لوگوں سے کہا ۔ تمہارے عہد نامے کو دیمک نے چاٹ لیا ہےاور یہ خبر مجھے میرے بھتیجے نے دی ہے۔اس معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، اگر بات اسی طرح ہے جیسا کہ میرے بھتیجے نے بتایا ہے تو معاملہ ختم ہوجاتاہے، لیکن اگر تم اب بھی باز نہ آئے تو پھر سن لو،. اللہ کی قسم! جب تک ہم میں آخری آدمی بھی باقی ہے، اس وقت تک ہم محمد ﴿صلی اللہ ﷺ ﴾کو، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔،، یہ سن کر قریش نے کہا: “ہمیں تمہاری بات منظور ہے… ہم معاہدے کو دیکھ لیتے ہیں ۔” انہوں نے معاہدہ منگوایا، اس
ہاں ! موجود ہے۔" جواب میں حضرت جعفر بولے ۔ "وہ مجھے پڑھ کر سنائیں ۔"نجاشی بولا۔ اس پر انہوں نے قرآن کریم سے سورہ مریم کی چند ابتدائی آیات پڑھیں ۔ آیات سن کر نجاشی اور اس کے درباریوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ نجاشی بولا: "ہمیں کچھ اور آیات سناؤ۔" اس پر حضرت جعفر نے کچھ اور آیات سنائیں ۔تب نجاشی نے کہا "اللہ کی قسم! یہ تووہی کلام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لےکر آئے تھے ۔خداکی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔" اس طرح قریشی وفد ناکام لوٹا ۔دوسری طرف مکہ کے مسلمان اسی طرح گھاٹی شعب ابی طالب ميں مقیم تھے ۔وہ اس میں تین سال تک رہے، یہ تین سال بہت مصیبتوں کےسال تھے، اسی گھاٹی میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ پیدا ہوئے، یہ حالات دیکھ کر کچھ نرم دل لوگ بھی غمگین ہوتے تھے، ایسے لوگ کچھ کھانا پینا ان حضرات تک کسی نہ کسی طرح. پہنچا دیا
خون بہانے سے بچنے اور بدکاری سے دور رہنے کا حکم دیا، اسی طرح گندی باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور گھروں میں بیٹھنے والی عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی ، ان پر ایمان لائے اور جو تعلیمات وہ لے کر آئے، ان کی پیروی کی۔ بس اس بات پر ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی تاکہ ہمیں پھر پتھروں کی پوجا پر مجبور کر سکے۔ ان لوگوں نے ہم پر بڑے بڑے ظلم کیے۔ نئے سے نئے ظلم ڈھائے، ہمیں ہر طرح تنگ کیا۔ آخر کار جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ ہمارے دین کے راستے میں رکاوٹ بن گئے تو ہم آپ کی سرزمین کی طرف نکل پڑے، ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کو پسند کیا۔ ہم تو یہاں یہ امید لے کر آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ہم پر ظلم نہیں ہوگا۔" حضرت جعفر ؓ کی تقریر سن کر نجاشی نے کہا: "کیا آپ کے پاس اپنے نبی پر آنے والی وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟"
بے حیائی کے کام کرتے تھے۔ رشتے داروں کے حقوق غصب کرتے تھے۔پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔ ہمارا ہر طاقت ور آدمی،کمزور کو دبا لیتا تھا۔ یہ تھی ہماری حالت، پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں اسی طرح ایک رسول بھیجا،جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں میں رسول بھیجے جاتے رہے ہیں ، یہ رسول ہم ہی میں سے ہیں ۔ ہم ان کا حسب نسب، ان کی سچائی اور پاک دامنی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک جانیں ، اس کی عبادت کریں اور یہ کہ اللہ کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ،ہم انہیں چھوڑ دیں ۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ نماز پڑھیں ، زکوٰۃ دیں ، روزے رکھیں ۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے،امانت پوری کرنے، رشتے داروں کی خبر گیری کرنے، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنے، برائیوں اور خون بہانے سے بچ
یہ تو وہی کلام ہے اس کے بعد حضرت جعفر ؓ نے کہا: "اللہ کے رسول نے ہمیں نماز کا حکم دیا ہے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔" اس وقت حضرت عمرو بن عاص ؓ نے نجاشی کو بھڑکانے کے لیے اس سے کہا:"یہ لوگ ابن مریم یعنی عیسٰی علیہما السلام کے بارے میں آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں ۔ یہ انہیں اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔" اس پر نجاشی نے پوچھا: "تم لوگ عیسیٰ ابن مریم اور مریم علیہما السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟" حضرت جعفر ؓ نے کہا: "ان کے بارے میں ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یعنی کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں ۔" پھر حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے بادشاہ کے دربار میں یہ تقریر کی: "اے بادشاہ!ہم ایک گمراہ قوم تھے، پتھروں کو پوجتے تھے،مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے، بے حیائی کے کام
نجاشی سے میں بات کروں گا۔" ادھر نجاشی نے تمام عیسائی عالموں کو دربار میں طلب کرلیا تھا تاکہ مسلمانوں کی بات سن سکیں ۔ وہ اپنی کتابیں بھی اٹھالائے تھے۔ مسلمانوں نے دربار میں داخل ہوتے وقت اسلامی طریقے کے مطابق سلام کیا، بادشاہ کو سجدہ نہ کیا، اس پر نجاشی بولا: " کیا بات ہے،تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟ " حضرت جعفر ؓ فوراً بولے: " ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، الله تعالٰی نے ہمارے درمیان ایک رسول بھیجے ہیں ... اور ہمیں حکم دیا کہ الله کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو، اللہ کے رسول کی تعلیم کے مطابق ہم نے آپ کو وہی سلام کیا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔" نجاشی اس بات کو جانتا تھا، اس لیے کہ یہ بات انجیل میں تھی۔
ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آپ کی سرزمین پر آئے ہیں ۔یہ لوگ ہم سے اور ہمارے معبودوں سے بیزار ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے آپکا دین بھی اختیار نہیں کیا۔یہ ایک ایسے دین میں داخل ہوگئے ہیں ، جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ اب ہمیں قریش کے بڑے سرداروں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں ۔" یہ سن کر نجاشی نے کہا: " وہ لوگ کہاں ہیں ۔" انہوں نے کہا: " آپ ہی کے ہاں ہیں ۔" نجاشی نے انہیں بلانے کے لیے فوراً آدمی بھیج دیے۔ایسے میں ان پادریوں اور دوسرے سرداروں نے کہا: " آپ ان لوگوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں ۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں یہ زیادہ جانتے ہیں ۔" نجاشی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا: " پہلے میں ان سے بات کروں گا کہ وہ کس دین پر ہیں ۔" اب مسلمان دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت جعفر ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: " نجاشی
ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح فرمایا ۔ ان مسلمانوں کو حبشہ میں بہترین پناہ مل گئی، اس بات سے قریش کو اور زیادہ تکلیف ہوئی ۔انہوں نے ان کے پیچھے حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ اور عمارہ بن ولید کو بھیجا تاکہ یہ وہاں جاکر حبشہ کے بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں (حضرت عمروبن عاص رضی الله عنہ بعد میں مسلمان ہوئے) یہ دونوں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لئے بہت سے تحائف لے کر گئے ۔بادشاہ کو تحائف پیش کیے ۔تحائف میں قیمتی گھوڑے اور ریشمی جبے شامل تھے ۔بادشاہ کے علاوه انہوں نے پادریوں اور دوسرے بڑے لوگوں کو بھی تحفے دیے...تاکہ وہ سب ان کا ساتھ دیں ۔بادشاہ کے سامنے دونوں نے اسے سجدہ کیا، بادشاہ نے انہیں اپنے دائیں بائیں بٹھالیا ۔اب انہوں نے بادشاہ سے کہا:
ان کے خاندان کے لوگ قریش کے اس معاہدے کے بعد حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خود اس گھاٹی میں چلے آئے تھے ۔یہ بات نہیں کہ قریش مکہ نے انہیں گرفتار کرکے وہاں قید کردیاتھا ۔ اس بائیکاٹ کے دوران بہت سے مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلےگئے ۔یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی ۔اس ہجرت میں اڑتیس مردوں اور بارہ عورتوں نے حصہ لیا ۔ان لوگوں میں حضرت جعفر بن ابوطالب رضی الله عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہا بھي تھیں ان میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبیداللہ بن جحش اور اس کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی الله عنہا بھی تھے ۔یہ عبیداللہ بن جحش حبشہ جاکر اسلام سے پھرگیاتھا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کرلیاتھا ۔اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔اس کی بیوی ام حبیبہ رضی الله عنہا اسلام پر رہیں ۔ان سے بعد میں آنحضرت ﷺ نے نکاح
یہاں تک کہ انہوں نے گھاس پھوس اور درختوں کے پتے کھاکر یہ دن گزارے - جب بھی مکہ میں باہر سے کوئی قافلہ آتا تو یہ مجبور اور بےکس حضرات وہاں پہنچ جاتے تاکہ ان سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لیں لیکن ساتھ ہی ابولہب وہاں پہنچ جاتا اور کہتا: "لوگو! محمد کے ساتھی اگر تم سے کچھ خریدنا چاہیں تو اس چیز کے دام اس قدر بڑھا دو کہ یہ تم سے کچھ خرید نہ سکیں ، تم لوگ میری حیثیت اور ذمے داری کو اچھی طرح جانتے ہو -" چنانچہ وہ تاجر اپنے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاتے اور حضرات ناکام ہوکر گھاٹی میں لوٹ آتے - وہاں اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتا تڑپتا دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ادھر بچے انہیں خالی ہاتھ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگتے ۔ابولہب ان تاجروں سے سارا مال خود خرید لیتا ۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے خاندان کے لوگ قریش
قریش نے اس معاہدے کی باقاعدہ تحریری لکھی، اس پر پوری طرح عمل کرانے اور اس کا احترام کرانے کے لیے اس کو کعبے میں لٹکادیا - اس معاہدے کے بعد ابولہب کو چھوڑ کر تمام بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب شعب ابی طالب میں چلے گئے، یہ مکہ سے باہر ایک گھاٹی تھی - ابولہب چونکہ قریش کا پکا طرفدار تھا اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن بھی تھا، اس لیے اسے گھاٹی میں جانے پر مجبور نہ کیا گیا - یوں بھی اس نے نبی کریم ﷺ کے قتل کے منصوبے میں قریش کا ساتھ دیا تھا، ان کی مخالفت نہیں کی تھی - نبی اکرم ﷺ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک 46 سال تھی - بخاری میں ہے کہ اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بہت مشکل اور سخت وقت گزارا - قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی - سب لوگ بھوک سے بےحال رہتے تھے - یہاں تک کہ انہوں نے
تم ہم سے دو گنا خون بہا لے لو اور اسکی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص آنحضرت ﷺ کو قتل کر دے تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمہیں فائدہ پہنچ جائے۔" آنحضرت ﷺ کے خاندان والوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا۔اس پر قریش نے غصے میں آکر یہ طے کیا کہ تمام بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور ساتھ ہی انہوں نے طے کیا کہ بنو ہاشم کو بازاروں میں نہ آنے دیا جائے تاکہ وہ کوئی چیز نہ خرید سکیں ۔ان سے شادی بیاہ نہ کیا جائے اور نہ ان کے لیے کوئی صلح قبول کی جائے۔ان کے معاملے میں کوئی نرم دلی نہ اختیار کی جائیں ،یعنی ان پر کچھ بھی گزرے، ان کے لیے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہونے دیا جائے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ بنی ہاشم کے لوگ آنحضرت ﷺ قتل کرنے کے لیے قریش کے حوالے نہ کردیں -
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺 🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹 🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤 🔖 30 ذوالقعدہ 1446ھ 💎 🔖 28: مٸی 2025ء 💎 🔖 14 جیٹھ 2081ب 💎 🌄 بروز بدھ Tuesday 🌄 🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻 سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر 10 نجاشی کے دربار میں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اورتمام مسلمانوں نے کعبہ کا طواف شروع کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آگے آگے رہے۔مسلمانوں نے کعبہ کے گرد نماز ادا کی۔سب نے بلند آواز سے قرآن کی تلاوت بھی کی۔جبکہ اس سے پہلے مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ اب تمام قریش نے مل کر نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے خاندان والوں سے کہا: "تم ہم سے دو گنا خون بہا لے لو اور اسکی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص آنحضرت ﷺ ک
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain