عشق وہم و گماں میں رہتا ہے میرے ہی جسم و جاں میں رہتا ہے آپ کا حوصلہ جو ہیں دل میں کون ٹوٹے مکاں میں رہتا ہے آپ کو بھولے ایک عمر ہوئی ذکر پھر کیوں بیاں میں رہتا ہے مہرباں لاکھ اور ہیں لیکن دھیان اک مہرباں میں رہتا ہے عشق باسی ہے ایک صحرا کا کب کسی گلستاں میں رہتا ہے عقل اور میں تو متفق ہیں مگر ایک دل درمیاں میں رہتا ہے جانے کیا بد دعا ہے اس دل کو ہر گھڑی امتحاں میں رہتا ہے وہ ڈبوتا ہے لازماً اک دن خوف جو بادباں میں رہتا ہے جس کو سمجھا تھا میں جہاں ابرک جانے اب کس جہاں میں رہتا ہے اتباف ابرک